مناظر

Thursday 6 July 2017

سلیوٹ کرتا نہیں ہوں وج جاتا ہے

سید امجد حسین بخاری
یس سر ہمارے وہ قومی الفاظ ہیں جنہیں ہم بغیر مرضی و منشا کے استعمال کرتے ہیں، باس کچھ کہیں تو یس سر، استاد کچھ کہے تو یس سر، ایک موٹر مکینک سے لے کر بیورو کریسی اور حکومتی ارکان تک ہم سب ان الفاظ کو استعمال میں کبھی پس و پیش سے دریغ نہیں کرتے، استاد نے کہا چھوٹے ٹائر ٹھیک طرح سے لگا تو گاڑی کے ساتھ چمٹا ہوا بچہ اپنی آستین سے پسینہ خوش کرے گا اور فورا کہہ دے گا یس سر ٹھیک لگاؤں گا، میں ایسی جگہ سےنشانہ بناؤں گا کہ تمھیں خبر بھی نہیں ہوگی کہنے والے بہادر جرنیل صاحب ایک ٹیلی فون کال پر یس سر کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ پورے ملک کی 17 سالوں سے ایسی تیسی ہو رہی ہے، انہیں چھوڑیئے اسی یس سر کی بدولت ملک وقوم کا ایسا سودا ہوا کہ سودا ہوا کہ جوان ، بوڑھے تو درکنار ہم نے اپنی بیٹی کو بھی فروخت کردیا


ابھی گذشتہ روز کے واقعے کو لیجئے، ایک نڈر، بے باک اور دلیر ہر لحاظ سے قابل خاتون آفیسر نے وزیر اعظم کی صاحبزادی کو سلیوٹ کیا کھڑکایا، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، تبدیلی کے دعویدار قبلہ عمران خان صاحب اپنے صاف و شفاف منجن سے تنقید کے تند و تیز نشتر لگے ہوئے بیانات لے کر میدان میں نکل آئے ان کی پیروی میں موصوف کے ہر اول فوجی دستے بھی خاتون کی کردار کشی میں صف اول کا کردار ادا کرنے لگے، استعفے کا مطالبہ کیا، قانونی نوٹس بھجوایا، میڈیا کو تو گویا بریکنگ نیوز کا تڑکا چاہئے تھا، اس اس اینگل سے خبریں نکالنا شروع کیں جیسے پرانے وقتوں میں گاؤں کی عورتیں سروں سے جوئویں نکالا کرتی تھیں یا کم سن سہیلیوں کا پنکھٹ پر جمگھٹا ہوتا تھا، جناب جانے دیجئے ناں میڈیا کو اسے تو بس پھٹا مارنا تھا، سوشل میڈیا پر انصافی چیتوں نے وہ طوفان بدتمیزی مچایا کہ ہیرا منڈی کی نازنینوں کے  ڈانس بھی ان کے سامنے شرمندہ تھے

اس بات کو ایک لمحے کے لئے نیوز روم تک یا فیس بک کی سٹیٹس تک ہی محدود رہنے دیں کہ ارسلہ سلیم نے مریم نواز کو سلیوٹ کیوں 
کیا؟ اس موضوع کو انصافی چیتوں اور لیگی شیروں تک محدود رکھتے ہیں ، مقابلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے والی، دوران ملازمت اعلیٰ اور امتیازی کارنامے سر انجام دینے والی خاتون آفیسر کا تذکرہ بھی یہاں نہیں کرتے، عورت کے حقوق کی بات کو بھی یہاں زیر بحث نہیں لاتے، مگر ایک لمحے کو غور کریں کیا ہمارا اپنا کردار بھی ایسا نہیں ہے، یہ ایک پولیس آفیسر کا ذاتی فعل نہیں ہے بحثیت مجموعی ہم سب کا ایسا ہی کردار ہے، وہ یاد ہیں ناں دھرنے کے دن، جی ایچ کیو سے بلاوا آیا تھا، یس سر یس سر کہتے ہوئے یاترا کے لئے کون گیا تھا؟ نہیں معلوم تو دھرنے کے دنوں کو ایک بار پھر یاد کریں ، اس کو چھوڑیں تھوڑا سا آگے چلیں  جاوید ہاشمی باغی کے انکشافات تو یقننا آپ کو ازبر ہی ہوں گے، ارے پانامہ کیس کا عدالتی فیصلہ ، ہاں جس پر سب نے مٹھائیں بانٹیں، اپنے اپنے انداز میں اس موقع پر خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے تھے، تب عدالتی حکم پر تو سب ہی یس سر یس کی گردان کر رہے تھے،


ارسلہ سلیم ! اللہ انہیں سلامت رکھے، مزید ترقیوں سے نوازے ، انہوں نے سلیوٹ مریم نواز کو نہیں کیا، ان کا سلیوٹ  اس باس کے نام 
تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسندا قتدار پر بیٹھے ہیں یقین جانیے انہوں نے جان بوجھ کر سلیوٹ نہیں کیا ہوگا بلکہ ان سے سلیوٹ وج 
کیا ہوگا، سلیوٹ کیسے وج گیا ہوگا، یہ داستان بھی سن لیں
عزیز ہم وطنو! آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ، ایک پولیس کا جوان ہوتا ہے، اس کا ریٹائرڈ باس آتا ہے 
پولیس کا جوان فوری اپنا ہاتھ اٹھا کر زور سے اسے سلیوٹ کرتا ہے، آفیسر جوان کی یاداشت درست کراتے ہوئے اسے یاد دلاتا ہے کہ میں ریٹائرڈ ہو چکا ہوں ، مجھے سلیوٹ نہ کرو ، جس پر جوان معصومانہ انداز میں کہتا ہے، حضور ! سلیوٹ کی عادت پڑ چکی ہے، آپ کو دیکھ کر سلیوٹ کرتا نہیں ہوں بلکہ خود ہی سلیوٹ وج جاتا ہے، ہاں ہم سب کا یہی حشر ہے ہم سلیوٹ کرتے نہیں ہم سے سلیوٹ وج جاتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہر فرد کا ایک الگ باس ہے جس کو دیکھ کر اس کا سلیوٹ وج جاتا ہے، پہلے اپنی سلیوٹ کرنے کی عادت ٹھیک کریں بعدازاں کسی دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں، رہے نام اللہ کا۔ 

No comments:

Post a Comment