مناظر

Friday 27 March 2015

گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب بیٹی کسی غریب کی فاقوں سے مر گئی


سندھ کے قحط زدہ علاقے صحرائے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ نہیں رک سکا۔حکام ان ہلاکتوں کی تعداد 293 بتاتے ہیں جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق یہ تعداد 506 ہے جو روزانہ کی بنیاد پر نام اور پتے کے ساتھ یہ اموات رپورٹ کر رہی ہے۔ڈپٹی کمشنر تھرپارکر آصف جمیل کا کہنا ہے کہ دو دسمبر سنہ 2013 سے لے کر 15دسمبر 2014 تک پانچ سال سے کم عمر کے 353 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تھر کے ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی ہے کہ پچاس کے قریب بچوں کی ہلاکت غذا کی کمی کے باعث ہوئی ہے۔جبکہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک بچے کی بھی ہلاکت بھوک سے نہیں ہوئی۔تھر کے محکمہ صحت کے ضلعی افسر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی کا کہنا ہے کہ 15نومبر سے 15دسمبر تک ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 51ہے ۔ جبکہ جنوری سے لے کر نومبر تک یہ تعداد 278 تھی۔ تھر سے رکن صوبائی اسمبلی مہیش ملانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈسٹرکٹ ہپستال میں رواں سال ساڑھے تین لاکھ مریضوں کا معائنہ کیا گیا، سرکاری ریکارڈ کے مطابق مٹھی ڈسٹرکٹ ہسپتال سے تین سو سے زائد بچے دیگر شہروں کے ہپستالوں کی جانب بھی ریفر کیے گئے ان میں سے کچھ کی حیدرآباد میں بھی ہلاکت ہوئی تاہم یہ تعداد ضلعی انتظامیہ کے پاس دستیاب نہیں۔

تھر میں غربت ، بھوک اور افلاس نے ڈیرے جما رکھیں ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے فلور پر sea food کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ۔ لذیز کھانوں کے بوفے لگا کر دعوتیں اُڑانے کی منصوبہ بندی تو ہوتی ہے لیکن تھر میں بھوک سے بلکتے بچوں اورغذائی کمی کی شکار خواتین کی حالت زار پر کسی نے کان تک نہیں دھرے ۔ خود وزیر اعلیٰ سندھ بھی اس کی جانب توجہ دینے کی بجائے سب اچھا ہے کے نعرے لگا رہے ہیں۔جب کہ سندھ حکومت کی جانب سے متاثرین کے لئے بھیجی جانے والی گندم کی بوریاں خراب ہوتی رہیں اور متاثرین کے پاس جو گندم پہنچی اس میں نصف گندم اور نصف مٹی تھی۔ 

حکومت کی جانب سے تھر میں گندم کی مفت تقسیم کا چوتھا مرحلہ جاری ہے، جس میں دو لاکھ 58 ہزار میں سے 244 ہزار خاندانو ں میں 50 کلو گرام گندم تقسیم کر
 دی ہے۔تھر میں بچوں کی ہلاکتوں اور خشک سالی کی وجہ سے مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے نے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک ٹیم تھر کے دورے کے بعد جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کمیشن کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ اتنے مختصر دورے میں تھر کو درپیش پیچیدہ صورتحال کا کوئی حتمی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم کمیشن تھر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، مروں اور سماجی کارکنوں کا مشکور ہے کہ انھوں نے ہمیں اپنے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔’اس کے علاوہ کمیشن ذائع ابلاغ کا بھی معترف ہے کہ انھوں نے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کے مسئلے کو اجاگر کیا۔اس سے نہ صرف تھر میں خشک سالی بلکہ اس علاقوں کو درپیش دیگر مسائل بھی منظر عام پر آئے ہیں۔بیان کے مطابق ’تھر کے لوگوں کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور مکانوں اور ہسپتالوں میں بچوں کی اموات ان مسائل کا صرف ایک پہلو ہیں۔ بچوں کی زیادہ شرح اموات دراصل ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ خوراک کی نہیں بلکہ ایسے مسائل ہیں جن پر ایک مدت سے توجہ نہیں دی گئی۔ان عوامل میں خوراک کی مسلسل فراہمی کا نہ ہونا، صاف پینے کے پانی کی کمی، صفائی ستھرائی کا فقدان، خواتین کی ناخواندگی اور انھیں خاندانی منصوبہ بندی کا شعور نہ ہونا شامل ہیں۔

 ان عوامل نے غربت، چھوٹی عمر کی شادیاں، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز کا دور ہونا، بنیادی صحت کے مراکز کے غیر موثر ہونے اور ہر آفت کو قسمت سمجھ کر بھول جانے جیسے مسائل کی وجہ سے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ان مسائل کے علاوہ تھر کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جس سے پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ پریشان ہیں۔یہاں کی پولیس بھی بدعنوان ہے، انتظامیہ کی کارکردگی خراب ہے اور سیاسی جماعتیں لوگوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتیں۔ تھر کے لوگ بھی مقامی ساہوکاروں سے لیے ہوئے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور موبائل فون اور موٹر سائیکل جیسی جدید چیزوں کی مانگ میں 
اضافے کی وجہ سے ان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ چکا ہے۔


جہاں تک سیاسی جماعتوں کے کردار کا تعلق ہے ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی ایک سیاسی جماعت نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کئے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے تھر کے لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے تھر بچاؤ ریلی منعقد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کی ساری ذمہ دار صوبائی حکومت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف بچوں کی ہلاکتوں کا مقدمہ درج کیا جائے۔ سیاسی بیانات ایک طرف لیکن تھر ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔ اس المیے سے نبٹنے کے لئے قومی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر کام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment