سید امجد حسین بخاری
میں اور اسد پاک ٹی ہاؤس سے گرما گرم چائے پی کر مال روڈ پر چہل قدمی کے لئے نکلے تیز بارش اور آندھی کے باعث مال روڈکا موسم سرد ہوچکا تھا۔سڑک پر اِکا دکا گاڑیاں رواں تھیں، سڑک کے دونوں جانب بنی ہوئی دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہوچکے تھے۔ابھی ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک مانوس سی آواز نے قدم روکنے پر مجبور کردیا ۔ یہ آواز گذشتہ سال بھی اسی سڑک پر سنائی دی تھی۔ تب شاید یہ موجودہ وقت سے بھی زیادہ مایوس تھی۔ آواز میں درد اور زمانے کاقرب چھپا ہوا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچا ہاتھ میں بالٹی پکڑے بلند آواز سے ’’گرم انڈے ، گرم انڈے ‘‘ پکارے جا رہا تھا۔ حالانکہ سڑک پر ٹریفک معمول سے کافی کم تھی لیکن پھر بھی وہ بچہ ٹریفک سگنل پر کھڑا کسی گاڑی کے رکنے کا انتظار کر رہا تھا۔میرے قدم رک گئے ۔وہیں سگنل کے قریب ہی فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا ، سردی کی وجہ سے میرا جسم کپکپا رہا تھا حالانکہ میں خود بھی گرم کپڑے پہنے ہوئے تھا اور حفاظتی اقدامات کئے ہوئے تھا۔ٹریفک سگنل پر کوئی بھی گاڑی رک نہیں رہی تھی ، مایوسی اور پریشانی بچے کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی آواز میں شدت آرہی تھی میں نے اسد سے کہا کہ انڈے کھانے ہیں اسد نے بھی انکار کردیا کیوں کہ فوڈ سٹریٹ سے کھانا کھانے اور پاک ٹی ہاؤس سے چائے پینے کے بعد مزید کسی چیز کی گنجائش نہیں تھی مگر بچے کی آواز کا درد مجھے بار بار اس سے انڈا خریدنے پر مجبور کررہا تھا میں نے بچے کو آواز دی ، بچے کے جسم پرلباس بھی برائے نام ہی تھا۔اس یخ بستہ موسم میں بغیر مجبوری کے کوئی بھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھتا اور یہ معصوم بچہ ۔۔۔ درجنوں سوالات میرے ذہن میں طوفان برپا کر رہے تھے۔ بچہ میرے قریب آیا ۔ معصوم سا چہرہ۔۔۔ بکھرے بال۔۔۔ پاؤں میں چپل ۔۔۔ جگہ جگہ سے پیوند لگی بغیر بازو کے شرٹ ۔۔۔ اس کا ظاہری حلیہ اس کے اندر کی داستان سنا رہا تھا میں نے بچے سے چار انڈے مانگے ۔۔۔ کتنے پیسے ہوئے ؟ اسد نے قیمت پوچھی ۔ صاحب جی ساٹھ روپے ہوگئے۔ بیٹا تم سکول نہیں جاتے ؟ میں نے زبان ذد عام سوال پوچھ ہی ڈالا ۔ جی صاحب میں سکول نہیں جاتا ہوں۔ پیسے ہی نہیں ابو اور امی دونوں کام کرتے ہیں پھر بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے میں دن کا کاغذ چنتا ہوں اور رات کو انڈے بیچتا ہوں۔ گرمیوں میں قلفیاں بیچتا تھا۔بیٹا سکول جانے کو دل نہیں کرتا؟ اسد نے سوال داغ ڈالا۔ صاحب جی دل تو کرتا ہے، سکول جانے کا ۔ بہت اچھا لگتا ہے ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے سکول جانا۔ صاحب بچے سکول جاتے ہوئے ڈھیر سارے پیسے بھی لے کر جاتے ہیں ناں !!!
یہ داستان ایک بچے کے نہیں بلکہ ملک بھر میں کروڑوں بچے تعلیم سے محرومی کا شکار ہیں ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت پانچ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جارہے۔ جبکہ اسی عمر کے صرف دو کروڑ ستر لاکھ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جبکہ صوبوں میں تناسب کو دیکھا جائے تو اس رپورٹ میں چشم کشا انکشافات کئے گئے ہیں۔فاٹا کے باسٹھ(62) فیصد ، پنجاب میں سے 47%جو کہ کل کا نصف ہیں۔ملک کے دارلخلافے اسلام آباد میں 16فیصد، بلوچستان میں 66%، سندھ میں 51%، خیبر پختونخواہ میں 34%بچے سکول جانے کی عمر میں پہنچ کر بھی سکول نہیں جا رہے ہیں۔ایک عورت کی تعلیم ایک قوم کی تعلیم ہوتی ہے، مگر ملک میں بچیوں کی تعلیم کی طرف دھیان بالکل بھی نہیں دیا گیا۔تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچوں میں سے 55فیصد تعداد بچیوں کی ہے جو تعلیم سے محروم ہیں۔جن میں 78فیصد فاٹا، 50فیصد خیبر پختونخواہ، 75فیصد بلوچستان، 54فیصد گلگت بلتستان ،58فیصد سندھ اور 50فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔سرکاری حکام کی جانب سے بلند و بانگ دعوے تو کئے جارہے ہیں مگر اس پر عملدرآمد نظر نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں تعلیم کو ترجیح اول میں رکھا جاتا ہے مگرمختلف صوبوں میں قائم سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی تعلیم کی جانب سے نظریں چرائے بیٹھی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں خادم اعلیٰ ایک طرف تو دانش اسکولز، لیپ ٹاپ سکیم ، نئے مکتب اور دیگر دعوے ، خیبر میں نئے پاکستان کا سورج طلوع کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ کشمیر میں تعلیم عام کا بلند و بانگ دعوے، سندھ کی اسمبلی میں تو جھینگا مچھلی کی ریسیپز ہی موضوع گفتگو ہوتی ہیں۔ بلوچستان کی اسمبلی اور حکومت کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ غرضیکہ سیاسی جماعتیں بس عوام کو پر فریب نعروں سے ہی دلاسے دے رہے ہیں، سندھ کے تعلیمی اداروں میں وڈیروں کے مویشی موج مستی کر رہے، جبکہ پنجاب میں چودھریوں کے ڈیرے سجے ہوئے ہیں، خیبر کے تعلیمی ادارے تو بس الامان الحفیظ، سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم ترقی اور خوشحالی کا دعویٰ کر رہے ہیں کیا نئی نسل ہم ان پڑھ ہی تیار کریں گے۔ وڈیرہ سسٹم ، چودہری کلچر اور افسر شاہی عام آدمی کی اولادوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں کسی بھی صورت میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی جبکہ حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ ہاتھی کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں کم نشستیں ہونے کے باعث نجی سیکٹر کو نوازنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کے باعث غریب طلبہ پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہو رہے ہیں ۔ ملک میں تعلیم کی موجودہ صورت حال اور اس کے پہلوؤں کا احاطہ آئندہ تحریوں میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔تاہم تعلیمی شرح میں اضافے کے لئے غربت کا سدباب ضروری ہے تاکہ کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہے۔
آؤ جھاڑو چھین لیں ان ننھے ہاتھوں سے کہ اب
ہاتھ میں ان کے قلم دینے کا موسم آگیا ہے
کب تلک کاغذ چنیں گے کوچوں کے گندھے ڈھیر سےکونپلوں کے پھولنے ، پھلنے کا موسم آگیا ہے۔
No comments:
Post a Comment