مناظر

Thursday, 11 September 2014

لٹ گئی کمائی میری ۔۔۔ تمھارا تماشا ابھی باقی ہے

اب کی بار پھر آسمان پہ بادل گرجے اور جم کے برسے ، ابر کرم پہاڑوں اور میدانوں میں جم جم کے برسا، تپتی ہوئی زمین پر بارش کا پانی کسی تریاق سے کم نہیں تھا ، مگر اس کی زیادتی بھی ایک قہر اور عذاب کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔مون سون ملک میں بہت ہی پرسکون گزر رہا تھا ، لیکن جاتے جاتے ملک میں تباہی کی داستانیں رقم کر گیا۔ کامران میرا ایک دوست یوں کہہ لیں کہ جگری دوست ہے، اسی سال جنوری میں محکمہ صحت سے سبکدوشی اختیار کی بدلے میں محکمے کی جانب سے ایک خطیر رقم ملی اور اس نے اپنی ساری جمع پونجی اپنا گھر بنانے میں لگادی ۔ اب کچھ دن قبل ہی وہ نئے مکان میں منتقل ہوا تھا سارا خاندان خوشی اور مسرت سے سرشار تھا ، غریب کے لئے چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی جشن سے کم نہیں ہوتیں ۔ لیکن شاید قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ۔حالیہ بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث اس کی ساری زندگی کی کمائی ملیامیٹ ہوگئی ، ایسی سینکڑوں داستانیں آزاد کشمیر میں اور پنجاب کے ڈوبنے والے دیہاتوں میں سننے کو مل جائیں گی۔

آزاد کشمیر کے ضلع حویلی میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ تباہی ہوئی۔ تادم تحریر 29افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ 100کے قریب زخمیوں کی تعداد ہے ، 600کے قریب مکان مکمل تباہ اور 2000کے قریب جزوی متاثر ہوئے ہیں جبکہ20ہزار کے قریب افراد شدید متاثر ہوئے ہیں اور کھلے آسمان تلے زندگیاں گزارنے بھی مجبور ہیں۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آزادکشمیر بھر میں 64ہلاکتیں اور109افراد زخمی ہیں ۔4ہزار کے قریب مکان جزوی اور 2500کے قریب مکمل تباہ ہوئیں ۔35ہزار افراد بے گھر ہوئیں، اسی طرح فصلیں اور مال مویشی کا نقصان اس سے کہیں بڑھ کرہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی جانب سے بذریعہ ہیلی کاپٹر سیر سپاٹا اور مصروفیت کے علاوہ کوئی بھی کام نہیں کیا گیا، اضلاع کا آپس میں رابطہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے بڑے پیمانے پر غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ضروریات زندگی کی قلت ایک انسانی المیہ کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

 وزیر اعظم پاکستان کا آزاد کشمیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ متاثرین کے لئے ایک امید کا پیغام ثابت ہوا ۔لیکن یہ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کئے گئے وعدے بھی تاحال ہوائی اعلانات ہی ثابت ہورہے ہیں ، آزاد کشمیر حکومت کے نمائندے وزراء اور قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو متاثرہ علاقوں میں ہونا چاہئے تھا مگر جان ہے تو جہاں کی مثال بنے ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے جائے پناہ کی تلاش ہی میں سرگرداں نظر آتے ہیں ۔دوسری جانب کشمیر میں تباہی پھیلا کر دریائی پانی پنجاب کے میدانی علاقوں میں داخل ہوا جس باعث لوگوں کی فصلیں تباہ ہوئیں ، سال بھر کی کمائی لٹ گئی درجنوں دیہات زیر آب آئے ۔ حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات کی کوششیں کی گئی لیکن ایسی صورت حال سے نمبٹنے کے لئے حکومت تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ۔این ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے 2 ہزار سے زائد دیہات متاثر ہوئے اور 450 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ صوبے میں بدترین سیلاب کے نتیجے 5 ہزار سے زائد مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے 12 ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور آزاد کشمیر میں 30 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے جبکہ ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی مجموعی 11 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ بڑے شہروں کو بچانے کے لیے سیلاب کا رخ چھوٹے دیہاتوں کی طرف موڑا جارہا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب بارشوں کے دوران اور اس کے بعد خاصے متحرک نظر آئے۔ متاثرہ علاقوں میں خود پہنچے ، متاثرہ خاندانوں کی ڈھارس بندھائی، وزیراعظم پاکستان نے خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ متاثرہ خاندانوں کو روشن کل کا خواب دکھایا ۔ مگر کیا حکومت دکھائے گئے سہانے خوابوں کی تعبیردے سکے گی۔

 ایک طرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دنگل لگایا ہوا ہے دونوں جماعتیں حکومت کے خلاف صف آراء نظر ہیں، سول نافرمانی کے نام پر قوم کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ قوم مایوسی کی دلدل میں دھنستی ہی چلی جا رہی اور یہ دونوں خود ساختہ سیاسی کزنز محلے میں لڑائی کروانے والی ماسی کا کردار ادا کر رہے ہیں ، عمران خان جو کہ پنجاب حکومت کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ان کی جماعت کے زیر تسلط صوبے خیبر پختوانخواہ میں چند دن قبل بھی بارشوں نے تباہی مچائی تھی جبکہ ان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ سوٹے پہ سوٹا لگا رہے تھے جیسے کوئی پرانے غم بھلا رہے ہوں اور اسی دوران ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔کرسی کی کھینچا تانی کا ایک مقابلہ سا لگا ہوا ہے۔ عوام کی کوئی خبر نہیں بلکہ صرف ایک ہی نقطہ ہے کہ وزارت اعظمیٰ کا خواب کب پورا ہوا دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن بس اس آس پر جدوجہد کر رہی ہیں کہ پانچ سال پورے لئے جائیں ۔عوام کی داد رسی کی توفیق کسی کو بھی نہیں ہورہی۔ پاکستان آرامی کے جوان اور چند خدمت خلق کرنے والی تنظیمیں عوام کے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہیں۔ملک کا دار ومدار زراعت پر ہے مگر زرعی رقبے بارش کی نظر ہوئے جارہے ہیں۔ کسانوں اور غریب ہاریوں کی ساری کمائی بپھرے ہوئے سیلابی ریلوں کی نظر ہو رہی ہے۔ پاکستانی قوم ایک اور صبر آزما ء وقت سے گزر رہی ہے۔ اس جذباتی قوم کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو ہے۔ اس وقت قوم کو ایک جذبے اور امنگ کی ضرورت ہے، انصار مدینہ کا جذبہ، ستمبر65ء کا جذبہ، اکتوبر 2005ء والا جذبہ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ،قوم کو اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کرنا ہوگی۔نوجوانوں کو اس سلسلے میں اپنا مثبت اور اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیلابی لہروں میں گرے افراد اور خاندانوں کی مدد کو پہنچنا ہوگا۔طلبہ کو میڈیکل اور ریلیف کیمپس قائم کرکے متاثرہ افراد کی مدد کرنی ہوگی۔ حکومت کو سیلابی ریلے سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے ہوئے انہیں پناہ گاہیں مہیا کرنا ہوں گی اور فوری خوراک اور دیگر ضروریات کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ہنگامی بنیادوں پر وبائی امراض سے نمٹنے کے کئے کام کرنا ہوگا۔ اپنا خیال رکھئے

No comments:

Post a Comment