مناظر

Wednesday 31 July 2019

عید آئی لیکن میری کہاں ہے؟

سیدامجدحسین بخاری
عید قربان کے موقع پر مجھے عیدالفطر کے بعد سے کشمیر میں ہونے والے مظالم بار بار یاد آرہے ہیں۔ کرفیو زدہ علاقے، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت، بولنے پر پابندی، ٹیلی فون، بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش۔ ایک جانب جعلی فوجی مقابلوں میں درجنوں کشمیری نوجوانوں کی شہادت تو دوسری جانب پیلٹ گنوں سے کشمیری بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور عورتوں کو بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ رہنماء یا تو نظر بند ہیں یا پھر جیلوں میں قید ہیں۔
اس عید پر سوچا کہ کیوں نہ اہل کشمیر سے ان کی عید کی تیاریوں کے بارے میں معلوم کروں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے اپنے رابطے میں موجود افراد سے رابطہ کیا مگر وہاں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے اکثر سے رابطہ نہ ہوسکا۔ سری نگر، اسلام آباد، اوڑی اور دیگر شہروں میں موجود رشتہ داروں سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے کی کوشش کی مگر ٹیلی فون کی بندش کے باعث ان سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔ لیکن ہمارے ایک دوست حمید بخاری کا خاندان جو اس ظلم و ستم اور فاقوں سے تنگ آکر دہلی تک پہنچا ان سے بالاآخر رابطہ ہوگیا۔
عید کے حوالے سے جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں تو نماز جمعہ ادا نہیں کی جاتی، عید کی نماز کی کا تصور کیسا؟ بچے اسکول نہیں جا پاتے، تاجر اپنے کاروبار کے لئے بازار نہیں کھول سکتے تو عید کی رونق اور تیاری پر بات کیا کرنی۔ کچھ ایسی ہی کہانی سری نگر سے ایک دوست عقیل بٹ نے سنائی۔ ان کے مطابق3 سو سے زائد افراد لاٹھی چارج اور پیلٹ گنوں کی وجہ سے زخمی ہیں۔ عید قربان منانے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بھارتی افواج نے نماز اور قربانی پر پابندی لگانے کے لئے کرفیو اور گھر گھر تلاشی کا ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ عید کے روز کشمیر میں قائم اقوام متحدہ کی جانب سے مارچ کا اعلان بھی کیا گیا ہے، اسی لئے ہندوستان عید پر کشمیر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے انسانی جذبات کو کچلنے کی کوشش کرے گا۔
ہندوستان نے کشمیر میں گزشتہ سال سے ہی گائے اور بھینس کی قربانی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ پابندی ستمبر 2015ء میں جموں وکشمیر ڈویژنل بینچ کے جج جسٹس دہراج سنگھ ٹھاکر اور جسٹس جاناک راج کوتوال نے ایڈووکیٹ پاریموکش سیتھ کی درخواست پر لگائی، اور عدالت نے یہ حکم بھی سنایا کہ پولیس اور فوجی انتظامیہ کو اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کڑی سزا دینے اور پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس پابندی کے خلاف کشمیر میں خونی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ یہی وہ دن تھے حریت رہنما آسیہ اندرابی نے گائے ذبح کرکے اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر کے ہندوستانی افواج اور حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ ایسے کسی بھی فیصلے کو نہیں مانتی۔
کشمیر میں گائے کے گوشت کو بڈماز کہا جاتا ہے۔ اسی بڈماز سے کشمیر کا روایتی پکوان ’’گشتابہ‘‘ تیار کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں گائے کی قربانی پر پابندی کی روایت نئی نہیں ہے، بلکہ ہمارے بزرگوں کے قصے بھی اس حوالے سے انتہائی دلچسپ اور دلیرانہ ہیں مگر مضمون کی طوالت کے باعث قصے پھر سہی۔ البتہ یہ بات آپ کو حیران کردے گی کہ کشمیر میں گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور گائے کے ذبح کرنے پر پابندی 1928ء سے لگائی گئی ہے۔
کشمیر میں رائج ڈوگرہ شاہی کے دوران مہاراجہ رنبیر سنگھ کے بنائے گئے رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 298 کے مطابق کشمیر میں گائے اور بھینس کا گوشت ممنوع ہے۔ ڈوگرہ شاہی کے خاتمے کے بعد بھی ہندوستانی سرکار نے اس پابندی کو قائم رکھا ہوا ہے اور گزشتہ سال عدالت نے بھی ڈوگرہ شاہی کے حکم کو ہی بنیاد بنا کر گائے کے گوشت پر پابندی لگا دی تھی۔ ویسے تو ہندو خود کو سبزی خور کہتے ہیں لیکن ان رپورٹس کا کیا کریں جو بتاتی ہیں کہ بھارت دنیا بھر میں گوشت برآمد کرنے میں پہلے نمبر پر ہے۔ کیا یہ منافقت نہیں کہ بھارت تو اس جانور کو مالی مفاد کے لیے دنیا بھر میں بیچے، لیکن مسلمانوں کو صرف اس لئے روکے کہ یہ اُن کے مذہب کا معاملہ ہے؟
بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے منسلک ایک صحافی نے سری نگر سے بتایا کہ قربانی پر پابندی کے بعد یوں لگ رہا کہ ہندوستان کشمیریوں کو مزید دبا نہیں سکتا۔ شاید ہندوستان اس بات سے لاعلم ہے یا سب اچھا ہے کا راگ الاپنے والوں کی آنکھیں اور کان بند ہیں کہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ گلوبل ویلج کے اس دور میں کسی کو محکوم بنانا ممکن نہیں رہا۔ کشمیر کا درد اور ہندوستان کے مظالم سے پل بھر میں دنیا باخبر ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صحافی نے مقبوضہ کشمیر میں صحافت کے حوالے سے خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اگر ایک خبر بھی ہندوستان کے خلاف دے دیں تو پوری وادی میں اخبار یا چینل بند کردیا جاتا ہے۔
ایک اور نوجوان طالب علم نثار احمد لون نے بتایا کہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں روزانہ 2 سو کے قریب افراد زخمی ہو رہے ہیں۔ غذائی اشیاء کی قلت کا یہ عالم ہے کہ امیر سے امیر ترین لوگ بھی ایک وقت کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ نثار کے والد اسلام آباد کے ایک بہت بڑے تاجر ہیں۔ نثار کے توسط سے ان سے گفتگو ہوئی تو موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ کا روزانہ کتنا نقصان ہو رہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ صرف اسلام آباد کے تاجر روزانہ کی بنیاد پر 40 کروڑ سے زائد کا نقصان کر رہے ہیں۔ میں نے فوری پوچھا کہ آپ نہیں چاہتے کہ یہ ہڑتالیں ختم ہوں، مظاہرے ختم ہوں اور آپ دوبارہ سے کاروبار جما سکیں؟ ایک طویل خاموش کے بعد وہ گویا ہوئے تو ان کی آواز سے درد جھانک رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سسکیاں لے لے کر رو رہے ہیں۔ ہمارے بیٹے ہماری آنکھوں کے سامنے شہید کئے جارہے ہیں، پیلٹ گنیں ہمارے پیاروں کو آنکھوں کی بینائی اور چہرے کی خوبصورتی سے محروم کررہی ہیں، ہمیں کاروبار جمانے سے زیادہ اپنی جانوں اور آنکھوں کی قربانی دینے والوں کے لئے آزادی کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا ہے۔ ہم نے اپنے بیٹوں کی قربانیاں کاروبار کے لئے نہیں دیں، ہماری منزل آزادی ہے اور آزادی قربانیاں مانگتی ہے۔ جان کی قربانیاں، مال کی قربانیاں، عزت و آبرو کی قربانیاں، ہم نے یہ تمام قربانیاں دی ہیں اور اب آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں۔
بزرگ کی باتیں سینے کو چھلنی کر رہی تھیں۔ میں نے جذباتی ماحول کو کم کرنے کے لئے گفتگو کا رخ موڑنے کا فیصلہ کیا اور ان سے پوچھا انکل عید پر تو ’بڈماز‘ نہیں ہوگا پھر ’گشتابوں‘ کے بناء آپ کے دستر خوان کی رونقیں کیوں کر ہوں گی؟ میرا خیال تھا کہ ہماری طرح یہ کشمیری بزرگ بھی مایوسی کا مظاہرہ کرے گا۔ ہندوستانی افواج اور حکومت کو صلواتیں سنائے گا مگر میرے اس سوال پر وہ کافی طیش میں آگئے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمھیں کس نے کہا ہم عید پر گائے ذبح نہیں کریں گے؟ ہم اگر پاکستانی پرچم چوکوں اور چوراہوں پر سر بلند کرسکتے ہیں تو ہم انہی چوراہوں پر گائے کی قربانی بھی کریں گے۔ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور عید پر گائے کی قربانی کرکے بھارتی فوج اور مودی سرکار کو یہ پیغام دیں گے کہ ان کی پابندیاں ہمارے راستے کو نہیں روک سکتیں اور نہ ہی ہمارے پاؤں کی زنجیر بن سکتی ہیں۔ وہ مزید گویا ہوئے کہ عید کی نماز بھی ہر سال کی طرح یادگار انداز میں پڑھیں گے۔
قارئین جذبہ آزادی سے سرشار کشمیری عوام کے جذبات اور پاکستان سے محبت کا جواب تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ عید قربان کے اس مقدس دن ان کشمیریوں کی قربانیوں کو یاد کریں جنہوں نے پاکستان کے پرچم کی سربلندی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ ان کشمیری بیٹیوں کو سلام پیش کریں جن کے سہاگ اس پرچم کو تھامنے کے لئے قربان ہوگئے۔ پاکستان کے لئے اپنی جوانیاں لٹا دیں، کشمیری پاکستان کی تکمیل کے لئے اپنے خون سے دئیے جلا رہے ہیں، ان دیوں کی روشنیوں کو مدہم نہ ہونے دیں اور اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان پر روا رکھے جانے والے مظالم کو پوری دنیا کے سامنے لائیں۔

بی آر بی نہر اور اُس کی تاریخ

سیدامجدحسین بخاری
آم کے گھنے درخت تلے، بی آر بی نہر کنارے بنائے گئے ٹیوب ویل کے پانی سے قربانی کے بیل کو نہلاتے ہوئے ہماری ملاقات ہوئی نور محمد سے۔ اپنی دنیا میں مگن، ماتھے پر پسینے کے بہتے ہوئے قطرے چمکتی چاندنی کی صورت ان کے چہرے کو جگمگا رہے تھے۔
میں ستمبر 1965ء کی جنگ کی عینی شاہد کی تلاش میں اپنے دوست اسد کے ہمراہ بی آر بی کے کنارے بسے ان کے گاؤں واہگڑی آیا تھا۔ مجھے یہاں کسی بزرگ سے ملنا تھا۔ موٹر بائیک سے اترتے ہی نور محمد پر نظر پڑی۔ سلام کیا، اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو نور محمد فوراً بولے، پتر اے گلاں بمبی کنارے نئیں ہوندیاں (بیٹا! یہ باتیں نہر کنارے نہیں ہو سکتیں)۔ بس پھر ان کی دعوت پر نہر سے کچھ فاصلے پر موجود آم کے درخت کے نیچے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ ستمبر 1965ء کا تذکرہ چھڑا تو ایک نگاہ آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا اور گویا ہوئے،
وہ اس وقت 25 برس کے تھے جب ہندوستان نے پاکستان کی سرحدوں پر حملے کی جسارت کی۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ آسمان سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، ہندوستانی ٹینکوں کی آوازیں آج بھی ان کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ لازوال جدوجہد اور جذبہ تھا۔ 
سچ پوچھیں تو میں نے 65ء کی جنگ کے جتنے بھی واقعات کتابوں میں پڑھے تھے یا بزرگوں کی زبانی سنے تھے ان میں پاک فوج کے جوانوں کے جذبہ ایمانی اور بہادری کے ساتھ ساتھ بی آر بی نہر کی داستانیں بھی تھیں۔ انہی داستانوں کو سننے کے لئے میں اس نہر کے کنارے پہنچا تھا۔ نور محمد جب جنگ کے واقعات بیان کر رہے تھے تو میرا بار بار دھیان بی آر بی کی جانب جاتا، بالاخر میں نے ان سے کہہ بھی ڈالا کہ کچھ تذکرہ اس نہر کا بھی کر دیں اور مجھے اس کے بارے میں بتائیں۔
نور محمد کے مطابق دیپالپور نہر جو کہ حسین والا ہیڈ ورکس فیروز پورسے دریائے ستلج کے دائیں جانب سے نکلتی تھی جس کا ہیڈ تو بھارت میں تھا مگر ساری نہر پاکستان کے اندر سے بہہ رہی تھی۔ جب پاکستان بنا تو بھارت نے دریائے راوی کا پانی مادھو پور ڈیم بنا کر روک لیا۔ 14 مئی 1948ء کو ہندوستان سے معاہدے کے بعد پاکستان نے مرالہ کے قریب سے دریائے چناب میں ایک نہر تعمیر کی جو سدھنوالی گائوں کے قریب دریائے روای میں ملتی ہے۔ یہ نہر دریائے روای کے نیچے سے بہتی ہے اور بیئیاں گاؤں کے قریب دیپالپور نہر میں مل جاتی ہے۔ اس کی تکمیل 1958ء کو ہوئی، اس لنک نہر بی آر بی ڈی کا اصل اور مکمل نام ’بمبانوالا راوی بیدیاں دیپالپور‘ نہر ہے۔ اس بی آر بی نہر سے لاہور کی نہر کو بھی پانی فراہم کیا گیا۔ گویا راوی کے کنارے آباد لاہور شہر کی اس نہر میں راوی کے بجائے چناب کا پانی دوڑتا ہے۔
جس طرح اس نہر کے نام کے پیچھے دلچسپ حقائق کارفرما ہیں اسی طرح اس نہر کو کھودے جانے کی بھی ایک اور دلچسپ وجہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع یہ نہر لاہور کی عوام کی جانب سے 1948ء میں کھودی گئی تھی۔ زندہ دلان لاہور نے صوبہ پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کی اپیل پر یہ نہر اس وقت کھودی جب انہوں نے اعلان کیا کہ اس مقام پر نہر کھودنے سے پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے ممکنہ شر انگیزی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ ان کی اپیل پر شہریوں نے 8 کلومیٹر رقبہ پر محیط یہ نہر محض چند دنوں میں بلا معاوضہ ہی کھود ڈالی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی اس نہر کی وجہ سے ہی بھارتی افواج کا لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
نور محمد کے بیان کی تصدیق اس وقت پاکستان آرمی میں اگلے مورچوں پر لڑنے والے اقبال صاحب نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج جب پاکستان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں تو اس وقت بی آر بی نہر نے پاکستان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان آرمی کی جانب سے بی آر بی نہر کا پانی سرحدی علاقوں میں چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے سرحد پر دلدل بن گئی اور دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی رک کئی جبکہ دوسری جانب چونکہ پاکستانی فوج نے کامیابی سے اس نہر پر موجود پلوں کی حفاظت کی اور جہاں ان کی پوزیشن کمزور تھی ان پلوں کو تباہ کردیا گیا۔ یوں پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک کہ انہیں فوجی کمک نہ پہنچ گئی۔ جس کے بعد بھارتی افواج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ میجر عزیز بھٹی نے بھی اسی نہر پر جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور نشان حیدر کے حق دار ٹھہرے۔
اقبال صاحب اور نور محمد دونوں نے اس جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ جب بھارت نے واہگہ بارڈر اور باٹا پور سیکٹر کی جانب پیش قدمی کی اور توپوں، ٹینکوں اور ٹڈی دل لشکر کے ساتھ حملہ کیا تو لاہور کا یہ سرحدی مشرقی علاقہ جو آج واہگہ نہالہ نروڑ ڈیال، جلو موڑ، باٹاپور بھین، بھانو چک، ساہنکے، پڈھانہ اور بڈیارہ برکی پر مشتمل ہے ایک خوفناک منظر پیش کر رہا تھا۔
سرحدی علاقہ کےعوام پاکستان آرمی کے پہنچنے سے پہلے ہی ہندوستانی افواج کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ ہندوستانی افواج کا مقابلہ کلہاڑیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیا۔ بی آر بی پر بنے پلوں کے راستوں سے جانور اور بچے محفوظ کیمپوں کی جانب روانہ کردئیے، جبکہ ان دیہاتوں کی عورتیں اور بوڑھے بھی جوانوں کے ہمراہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
نور محمد کا کہنا تھا کہ میری والدہ اور دو بہنوں کو خاندان کے افراد نے بچوں کے ہمراہ روانہ ہونے کا کہا تھا مگر انہوں نے جانے کے بجائے بہادری سے لڑنا شروع کردیا اور میری بہنیں میرے والد سے کہنے لگیں کہ آپ ہمارے اندر حضرت صفیہ جیسی بہادری اور حضرت زینب جیسا صبر اور حوصلہ پائیں گے۔ اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ نہر کی دوسری جانب سے لاہور کے رضاکار اور نوجوان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے باٹا پور کی جانب چل پڑے تھے۔ لاہور کینال کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں کے لوگ جب محفوظ مقامات کی جانب جارہے تھے تو لاہور کے رہائشی نہر کے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہمیں کھانے پینے کی اشیاء پہنچا دیتے تھے۔
میں ان دو بزرگوں کی گفتگو سن کر تصور میں خود کو اس نہر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا محسوس کررہا تھا۔ سرحدی علاقوں کی غازی خواتین ہوں یا لاہور اور پورے پاکستان کی وہ عفت ماب عورتیں جنہوں نے اپنے زیور دفاع وطن کی خاطر دے دئیے تھے، سبھی کے سراپے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ نور محمد نے لسی کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ ان کی محبت اور آنکھوں کی چمک گھنٹوں بیٹھنے پر مجبور کر رہی تھی مگر واپسی بھی ضروری تھی۔
اسد کے مشورے سے راوی سائفن کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ بی آر بی کے کنارے چلتے ہوئے جا بجا ہندوستانی فوج کے مورچے اور پاکستانی جانبازوں کی جراتوں کی داستانیں دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ برکی پر میجرعزیز بھٹی کی جائے شہادت دیکھی جہاں انہوں نے جرات اور بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ مناواں کے مقام پر پاک فوج تیسری بلوچ رجمنٹ کے اُن 39 افراد کی یاد میں تعمیر کی گئی یادگار دیکھی جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں واہگہ سیکٹر، باٹاپور پل بی آر بی کینال پر مادر وطن کا زبردست دفاع کیا اور 10 اور 11 ستمبر 1965ء کو دشمن پر جوابی حملہ کیا۔ لاہور شہر کا ذرہ ذرہ ان شہداء اور غازیوں کی یادوں سے بھرا ہوا ہے جس نے عددی اور عسکری اعتبار سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست دی۔
بی آر بی نہر کے دونوں جانب لگائے جانے والے مائنز کے بارے میں بعض افراد نے پروپیگنڈا کیا۔ لیکن شاید وہ لوگ اس کے محل وقوع سے واقف نہیں ہیں کیوںکہ اس کے دونوں جانب دیہات آباد ہیں اور مائنز لگانا ممکن نہیں۔ بی آر بی نہر حقیقت میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ ایک جانب ملک کے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے میں اس کا متبادل نہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کے دفاع کو مضبوط اور مستحکم بنا رہی ہے۔ اسی نہر سے ایک اور نہر نکالی گئی ہے جو واہگڑیاں گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ تک جاتی ہے۔ جس کے دونوں جانب لگے ہوئے درخت نہر اور لاہور کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ مگر اسی نہر کے گرد بنائے گئے رہائشی اسکیموں کا سیوریج اس حسین نہر کو آلودہ کر رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نہر کی خوبصورتی کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اہلیان لاہور بی آر بی اور لاہور کینال کے احسان مند رہتے ہوئے اس کا خیال بھی رکھیں کیوں کہ 65ء کی جنگ میں اسی نہر نے اہلیان لاہور کی حفاظت کی اور دشمن کا لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کا خواب چکنا چور کیا۔

مال جس کی جیب میں ہو، وہ ڈگریاں خرید لے

سیدامجدحسین بخاری
گزشتہ دنوں انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی بدعنوانی اور کرپشن کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا رہا۔ نااہل اور کرپٹ انتظامیہ نے پیسے لے کر من مانے لوگوں کو اے گریڈ میں مارک شیٹس جاری کیں۔ مال بناؤ پالیسی کے تحت جتنی زیادہ جیب ڈھیلی کرو گے اتنے ہی زیادہ نمبرز ملیں گے۔
محکمہ اینٹی کرپشن کے حکام کے مطابق تادم تحریر اٹھانوے کے قریب کیسز سامنے آئے ہیں جن کے تحت نتائج میں ردوبدل کیا گیا۔ جبکہ کراچی انٹربورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر امتحانات دبیر احمد نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے نتائج میں ردوبدل کرنے کے لیے کروڑوں روپے بطور رشوت وصول کئے جو کہ ایک رشتہ دار کے اکاؤنٹ میں ہیں۔ دبیر احمد نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2015ء کو چئیرمین انٹر بورڈ کراچی اختر غوری نے ایک اخباری بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سابقہ ادوار میں نتائج 24 کروڑ روپے میں فروخت کئے گئے تھے۔ تعلیم کا یہ معیار کراچی یا اندرون سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں ایسے نتائج معمولی بات ہے۔
نرسری کے نتائج سے لے کر اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں تک ہر جگہ دولت، رعب و دبدبہ کام آتا ہے۔ اس میں محض افراد ہی نہیں بلکہ اسکول، کالجز، تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیز بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں میڈیا پر گوجرانوالہ بورڈ کی ایک طالبہ نورین کوثر نے نویں جماعت کے امتحانات میں 505 میں سے 504 نمبرز حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ میڈیا پر اس بارے میں بریکنگ نیوز چلیں، سوشل میڈیا بھی پیچھے نہ رہا، دھڑا دھڑ مبارکباد پیش کی جانے لگی۔ راقم کو جب اس خبر کی اطلاع ملی تو اتفاقاََ اس وقت کچھ ماہرین تعلیم سے چند امور پر گفتگو کر رہا تھا۔ چینل نے اس طالبہ کی ریکارڈ کارکردگی کی خبر نشر کی تو تمام ماہرین کی آنکھیں حیرت اور تذبذب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ تمام ماہرین پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اس لئے ان کے نام اس تحریر میں شائع نہیں کئے جارہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق ریاضی کے مضمون کے علاوہ کسی بھی مضمون میں 100 فیصد کارکردگی دکھانا یا اس کارکردگی کو پورے نمبر دینا ناممکن ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا 70 فیصد حصہ معروضی سوالات پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ نگران جتنی بھی نگرانی کرلے اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے جانب سے بیشتر حصہ معروضی کرنے کی وجہ رٹا کلچر کا خاتمہ بتائی گئی ہے مگر میری نظر میں اس وجہ سے رٹا کلچر میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر سال اکثر معروضی سوالات دہرائے جاتے ہیں جبکہ مارکیٹ سے امدادی کتب باآسانی دستیاب ہیں جن میں موجود پیپرز کو طلبہ و طالبات رٹے کے ذریعے تیار کرلیتے ہیں اور معذرت کے ساتھ ہمارے امتحانی بورڈز کے پیپرز تیار کرنے والے اکثر ممتحن بھی انہیں پیپرز کی مدد سے ہر سال سوالیہ پرچے تیار کرتے ہیں۔
محکمہ تعلیم اگر اس کی تحقیق کرے تو کئی چشم کشا انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ سارا امتحانی اور تعلیم نظام بگاڑ کا شکار ہے جبکہ اس پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی محض مراعات کے حصول میں مگن ہیں۔ طلحہ ادریس نصاب سازی کرنے والے ایک نجی ادارے سے منسلک ہیں ان سے جب نہم کے موجودہ نتائج کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ،
’’رٹا کلچر اور معروضی طریقہ امتحانات دولت اور اقربا پروری ہی معیار تعلیم کی گراوٹ کا باعث ہیں۔‘‘
امداد اللہ ایجوکیشن کے محقق ہیں۔ نظام تعلیم اور طریقہ تدریس پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ بھی تعلیمی تحقیق کے ایک نجی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے مطابق،
’’سفارش، اثر و نفوس، پیپرز کا آؤٹ ہوجانا اور امتحانی نظام میں خرابیاں تعلیمی نظام کو خراب کر رہے ہیں۔ طلبہ کو مشقی سوالات اور رٹا کلچر سے باہر نکال کر انہیں تعلیم دی جائے۔ حکام طریقہ امتحانات اور طریقہ تدریس پر نظر کریں‘‘۔
قارئین ملتان بورڈ میں 505 کل نمبروں میں ایک طالبعلم نے 505 نمبر حاصل کئے اور گوجرانوالہ کے ایک طالبعلم نے 505 میں سے 504 نمبر حاصل کئے۔ ہر گلی میں ہر اسکول نے 90 فیصد اور 95 فیصد سے زائد نمبروں والے بچوں کے بینرز معہ تصاویر لگائی ہیں۔ اس ملک میں حافظ پیدا کئے جا رہے ہیں، چاہے وہ دینی مدارس ہوں یا پرائیویٹ اسکولز جن کا تخلیق کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے میں جن بچوں کے نمبرز کم ہیں وہ ایک نفسیاتی مسئلہ کا شکار ہیں۔ کل بہت سے بچوں کے رونے اور افسردہ ہونے کی خبر سنی ہے، اللہ نہ کرے یہ تعلیمی رجحان بچوں میں مایوسی کا سبب بنے۔
طلبہ کے اتنے زیادہ نمبرز لینا کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں اردو، انگریزی میں مکمل نمبرز دینا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں۔ میں نے گوجرانوالہ بورڈ کے نتائج میں ریکارڈ نمبرز لینے والی طالبہ کے حوالے سے اپنے ذرائع سے تحقیق کی تو مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ طالبہ کے والد اور والدہ دونوں سرکاری ہائی اسکولز میں صدر معلمین ہیں۔ اس طالبہ کی ایک بہن اور بھائی پہلے بھی میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں بورڈ میں اول پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں۔ ایک بہن کنگ ایڈورڈ میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور وہاں ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ میرے ذرائع نے شک کی بنیاد پر بتایا ہے کہ مذکورہ طالبہ کے والدین گوجرانوالہ بورڈ کے ممبران بھی ہوسکتے ہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ میٹرک کے نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب حکومت اور محکمہ تعلیم کے حکام کو اس بات کی چھان بین کرکے ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی چاہیئے۔ جب معیار تعلیم بہتر اور طریقہ امتحانات شفاف ہوتا ہے تو علم کے دیئے جھونپڑیوں میں روشن ہوتے ہیں۔ گدڑیوں کے لعل بھی علم کے زیور کو زیب تن کرتے ہیں، جس کی واضح مثالیں چکوال کی خانہ بدوش لڑکی نرگس گل کی میڑک کے امتحان میں نمایاں کارکردگی،تندور لگانے والے طالب علم کا اول پوزیشن لینا اور ہر سال مختلف بے بس، مجبور اور لاچار والدین کے بیٹے اور بیٹیوں کی اعلیٰ کارکردگی ہیں۔ لیکن پنجاب کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے اس قدر زیادہ نمبرز دینا بورڈز کے طریقہ امتحانات کی شفافیت اور کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
ماہرین تعلیم ششدر ہیں کہ یہ کیوںکر ممکن ہوا۔ کوئی بھی طالب علم جتنا بھی ذہین کیوں نہ ہو اس کے لئے سو فیصد کارکردگی دکھانا ممکن ہی نہیں۔ پڑھو پنجاب کا نعرہ لگانے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نتائج کا جائزہ لیں اور اس بات کی تحقیق کریں کہ کہیں انٹر بورڈ کراچی کی طرح پنجاب میں بھی تو ڈگریوں کی لوٹ سیل تو نہیں لگی ہوئی۔ علم کے دیئے فروخت کرنے کی بجائے ان گھروں میں جلنے چاہیں جو واقعی اس کی روشنیوں کے حق دار ہیں۔

بچوں کے اغواء کی وارداتوں کا ایک رخ یہ بھی ہے

سیدامجدحسین بخاری
رانا ٹاون لاہور کے نواح میں موجود ایک پسماندہ ہاوسنگ سوسائٹی ہے، جہاں پر ملک کے دور دراز علاقوں سے مزدوری کے لئے آئے افراد رہائش پزیر ہیں۔ گزشتہ روز میں وہاں کچھ دوستوں سے ملنے کے لئے گیا۔ جس گھر میں مقیم تھا وہاں موجود دس سال کے ایک بچے کو ٹھنڈا پانی لینے کی غرض سے گھر سے ملحقہ دکان پر بھیجنا چاہا تو اچانک اُس بچے کی والدہ پاوں پڑگئیں کہ میرے بچے کو پانی لینے نہ بھیجیں۔ میں اس غیر متوقع رویہ سے اچانک پریشان ہوگیا۔ ان سے وجہ جاننا چاہی تو ایک لمبی داستان سننے کو ملی۔
ان کے پاس موجود خبروں کے مطابق ان کے محلے سے تین بچے پکڑے گئے ہیں۔ وہ بچے کون تھے؟ کس کے تھے؟ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ایک برقع پوش خاتون ایک بچے کو اغواء کرکے لے جا رہی تھی کہ بچے نے شور مچادیا، جس پر مقامی لوگوں نے اس خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ تھانہ رانا ٹاون سے اس واقعہ کے بارے میں معلومات لینا چاہی اور پوچھا کہ کیا یہاں کے لوگوں نے کسی اغواء کار خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا ہے؟ جس پر وہاں موجود اہلکاروں نے مکمل انکار کردیا۔
یہ تو ایک چھوٹی سوسائٹی کی داستان ہے۔ راقم رانا ٹاون کے بعد جی ٹی روڈ پر موجود دیگر رہائشی علاقوں رچنا ٹاون، امامیہ کالونی، شاہدرہ وغیرہ میں بھی گیا اور وہاں پر بھی تمام علاقوں میں ایسی ہی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ لوگ بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے پریشان تھے، اکثر تعلیمی ادارے جو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھل گئے تھے ایک بار پھر بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک نجی اسکول کے پرنسپل سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا لوگ بچوں کو اسکول بھیجنا ہی نہیں چاہتے۔ خوف اور سراسیمگی کی فضاء ہے۔ لوگوں کا انتظامیہ، پولیس اور سیکورٹی کے اداروں سے اعتماد ختم ہوگیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کوئی نادیدہ قوتیں ملک میں ایسی فضاء قائم کرکے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن مجھے بھی باقی باتوں کی طرح یہ بات بھی ایک افواء ہی لگی۔ نجی یونیورسٹی میں نفسیات کی معلمہ دردانہ مقدس سے جب گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے بچوں اور والدین پر بہت خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس خوف سے نکلنے کے لئے والدین اور بچوں کو ایک طویل وقت درکار ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی شیراز حسنات کا کہنا تھا کہ واقعات میں حقیقت کم اور افواہوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا اور ایڈیشنل آئی جی آپریشنز شہزادہ سلطان نے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ پنجاب میجر (ر) اعظم سلمان بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا کہنا تھا کہ 2011ء سے لیکر جولائی 2016ء تک 6793 بچے غائب ہوئے جن میں سے 6661 گھروں میں واپس پہنچ گئے یا انھیں بازیاب کرا لیا گیا۔ اِس وقت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس 168 بچے موجود ہیں جن کے والدین اور عزیز و اقارب کو تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اغواء برائے تاوان کے اب تک صرف 4 واقعات کی شکایات درج ہوئی ہیں اور اغواء ہونے والے چاروں بچے بحفاظت بازیاب کرلیے گئے تھے، جبکہ 2015ء میں اغواء برائے تاوان کے 16 کیسز درج کئے گئے تھے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ دو سالوں میں صوبے بھر میں 1901 بچے لاپتہ ہوئے۔ جن میں سے 1532 خود بخود گھروں کو واپس آگئے جبکہ 283 کو پولیس کی مدد سے ان کے والدین تک پہنچایا گیا۔ واپس آنے والے 1808 بچوں سے کی گئی پوچھ گچھ کے بعد جو وجوہات سامنے آئیں اس کے مطابق، 795 بچے والدین کے سخت رویہ، 138 خاندانی جھگڑوں، 111 میاں بیوی کی علیحدگی، 83 اسکولوں یا مدرسوں میں بدسلوکی، 74 رشتہ داروں کے ساتھ، 51 جبری مشقت یا بھیک مانگنے، 42 جنسی زیادتی، 29 معذوری کی وجہ سے غائب ہوئے جبکہ 392 بچے ایسے تھے جو ماں باپ سے بچھڑنے کی وجہ سے اِن حالات کا شکار ہوئے۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے ان سے سوال کئے تو انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں اغواء ہونے والے تمام بچوں کا ڈیٹا میرے پاس نہیں، ایک دو روز میں سارا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد میڈیا کوآگاہ کردوں گا جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جس میں 2 گرفتار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہو کہ اس نے 100 سے زیادہ بچے اغواء کرکے کراچی بھجوائے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ہوئی تو اس کیلئے اسپیشل ٹیم تشکیل دی جائے گی جو ان بچوں کو بازیاب کروائے۔
اِس موقع پر لاہور پریس کلب میں موجود صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ میڈیا اس سارے مسئلے کی جڑ ہے، میڈیا میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو رپورٹ کرکے خوف و ہراس کی کیفیت پھیلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بچوں کے والدین کا رویہ متشدد ہوتا جا رہا ہے، ہر اجنبی کو دیکھ کر اس کی خوب دھلائی کی جاتی ہے۔ کل لاہور میں اپنے بچے کو ویکسین کے لئے لے جانے والے باپ کو مشتعل ہجوم نے اغواء کار سمجھ کر خوب دھلائی کی، اسی طرح ایک روز قبل مغل پورہ میں ایک شریف غبارے والے کو بھی مار مار کر لہولہان کردیا گیا اور ایسی کئی خبریں روز سننے کو مل رہی ہیں۔ ان کیسز کے حوالے سے جب مختلف ذرائع سے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ واقعات معمول کے مطابق ہوئے ہیں لیکن میڈیا اسے بہت زیادہ ہوا دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف وہراس پایا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو جس پر بھی شک گزرتا ہے اس کی ایسی کی تیسی کردی جاتی ہے۔
خدانخواستہ معاملات اگر یونہی جاری رہے تو مجھے ڈر ہے کہ کل ایسے ہی مشتعل لوگوں کا ہجوم کسی معصوم کی جان ہی نہ لے بیٹھے۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں سب سے بڑا مجرم ہمارا میڈیا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے لاہور میں موجود کرائم رپورٹرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ انہیں چاہیے کہ پولیس افسران کے حمایتی یا مخالف بننے کے بجائے اس دھرتی کے فرزند ہونے کا ثبوت دیں۔ ٹیبل اسٹوریز کرنے سے پہلے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک دفعہ ضرور جائیں جہاں رپورٹرز کی بریکنگ نیوز کے پیچھے لگنے والی دوڑ نے کتنے گھروں میں اندھیرے کر دئیے ہیں۔ کتنے لوگ خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دے رہے۔ کتنی معصوم بچیوں کی گڑیاں صندوق میں بند کرکے رکھ دی گئی ہیں۔ ایک دفعہ اندرون شہر کی تاریکی میں مایوسی پھیلاتی افواہوں پر بھی خبر بنا کر اپنے چینل کو بھیجیں، آپ ریاست کے چوتھے ستون کے محافظ ہیں۔ جب محافظ ہی ستون کو دیمک لگ کر کھانا شروع کردیں تو عمارت کیوں کر قائم رہ سکے گی؟

وادی کمراٹ، جہاں قدرت گلے ملتی ہے

سیدامجدحسین بخاری
زندگی میں بعض اوقات انسان کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں، جن پر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ یہ موقع اسے پہلے میسر کیوں نہیں آیا۔ اپنی زندگی میں مجھے قدرت نے سارا پاکستان دیکھنے اور گھومنے کا موقع دیا۔ اس حسین وطن کے جنگل گھوما، صحراؤں کی خاک چھانی، سمندر کی سیپیوں سے سرگوشیاں کیں، پہاڑوں سے ہم کلام ہوا، ندیوں کے نغمے سنے اور جھیلوں کے کنول چنے، لہلہاتے میدان دیکھے تو بل کھاتے دریاؤں سے لطف اندوز ہوا، مگر گزشتہ ہفتے گلوبل ویلیج کی سرحدوں سے پرے ایک خاموش وادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر دیر میں واقع یہ وادی ابھی تک پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔
یہ بھی خیال رہے کہ نوجوانوں کا ایک وفد اسی وادی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کی دعوت پر اس وادی کا دورہ کر رہا ہے۔ اسی وفد میں راقم بھی شامل ہے۔ لاہور سے تیمرگرہ تک کا سفر نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس پر کیا۔ بس میں سوار ہوتے ہی اس خطے کی ثقافت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے۔ جناب موسیقی کی دھنوں سے کوسوں دور پشتو شاعری بس میں سنائی دے رہی تھی، مگر کچھ دیر بعد یہ شاعری بھی بند کردی گئی۔ بس رکنے اور چلنے کا اعلان بھی پشتو میں ہور ہا تھا جو کہ ہماری سمجھ سے بالا تھا۔ تاہم ہمارے وفد میں موجود پشتون نوجوان ترجمانی کا فرض بخوبی نبھا رہے تھے۔ لاہور سے تیمرگرہ 12 گھنٹوں پر محیط سفر ہے، اس سفر کے دوران اپنی شناختی دستاویزات ہمراہ رکھنا لازمی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی پاکستان آرمی کی جانب سے قائم کی گئی چیک پوسٹس پر شناختی کارڈز کی چیکنگ ہوتی ہے۔
تیمر گرہ سے اپر دیر تک ایک کشادہ سڑک جاتی ہے، مگر اس سڑک پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے، اس سڑک سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ لاہور کی مال روڈ سے جا رہے ہوں۔ تیمرگرہ سے اپر دیر پہنچنے تک راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے بازار آتے ہیں۔ ڈاب، رباط، خال، شلفم، طورمنگ، اُنکار، خاگرام، آمین آباد، واڑی، وحید آباد اور داروڑہ اہم بازار ہیں۔ دیر بالا کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 5 سو میٹر قبل ایک شاہراہ اس حسین اور دل کش وادی کی جانب جاتی ہے۔ سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی جو دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ جاتی، پہاڑوں کے درمیان سے یہ بل کھاتی سڑک بہت ہی حسین مناظر کی امین ہے۔ اسی سڑک پر پہلا پڑاؤ ایک خوبصورت وادی شرینگل میں ہوتا ہے، یہاں پر خوبصورت بازار اور ایک چھوٹا سا شہر بھی آباد ہے، جب کہ یہاں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے۔
یونیورسٹی شہر کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے بنائی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے تبدیلی کے دعوؤں کے برعکس اس یونیورسٹی کی حالت زار قابل رحم ہے۔ یونیورسٹی کے حال پر ایک تحریر انشاءاللہ ضرور لکھی جائے گی۔ شرینگل کے بعد پاتراک کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں طالبات کے لئے ایک مڈل اسکول اور طلبہ کے لئے ہائی اسکول قائم ہے۔ یہاں پر ٹراؤٹ فش کا ایک فارم بھی ہے جو کہ سرکاری طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ پالی تو جاتی ہے مگر بڑے ہونے کے بعد ٹراؤٹ جاتی کہاں ہے؟ وہاں موجود کسی بھی شخص نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ پاتراک سے اگلا پڑاؤ تھل میں ہوتا ہے، تھل کو وادی کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ تھل 2 سو سال سے آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں کوہستانی قوم کے افراد آباد ہیں۔ یہاں طلبہ اور طالبات کے لئے علیحدہ علیحدہ پرائمری اسکول قائم ہیں۔ طالبات صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ طلبہ کا رحجان ہائر ایجوکیشن کی جانب زیادہ ہے۔
یہاں سوشیالوجی کے دو طالب علموں سے ملاقات ہوئی، نوجوانوں سے گفتگو کے دوران اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ اپنی روایات سے عاری بس میڈیا کے سہارے چلنے والے نوجوان تھے۔ تھل سے اس وادی کیلئے 2 راستے نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی کمراٹ کو جاتا ہے جہاں قدم قدم پر قدرت کے کرشمے انسانوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب جہاز بھانڈا (بھانڈا پشتو زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پہاڑوں پر 15 سے 20 گھر ہوں اور اس جگہ کو جہاز بھانڈا مقامی لوگوں کے مطابق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ جہاز جتنی بلند جگہ ہے) اور باڑ گوئی کا پہاڑ ہے۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے پہلے دو دن جہاز بھانڈا اور باڑ گوئی کے پہاڑ کے دورے کیلئے مختص تھے۔
تیمرہ گرہ سے تھل تک سفر کے لیے سڑک پر تعمیرانی کام جاری تھا جس کی وجہ سے سفر میں سات گھنٹے لگے۔ تھل شہر میں حکومت کی بنائی ہوئی سڑک اور پرائمری اسکول کے علاوہ کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی، یہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پن بجلی کے پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں، تھل میں یہاں کی 150 سالہ پرانی مسجد ہے۔ دریا کنارے آباد یہ چھوٹا سا قصبہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے، جس طرح یہ قصبہ خوبصورت ہے اسی طرح یہاں کے لوگ محبتیں بکھیرنے والے، پیار کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔ اجنبی کو دیکھ کر بے اختیار ان کے ہاتھ سلام کے ساتھ مصافحہ کیلئے بلند ہوجاتے ہیں۔ آپ گاڑی پر ہوں یا پیدل ہر چھوٹا، بڑا، نوجوان اور بوڑھا ہاتھ بلند کرکے آپ کو السلام و علیکم کہے گا۔ اسی لئے دوران سفر ڈائری میں اس وادی کا نام میں نے وادیِ السلام علیکم لکھا۔
تھل سے ہماری اگلی منزل باڑ گوئی کے جنگلات میں بنایا گیا محکمہ جنگلات کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس تھا، رات ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد مقامی افراد کے مشورے کے بعد باڑ گوئی کی پہاڑی پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ دیر بالا سے تھل پہنچنے تک جو گاؤں یا قصبے آتے ہیں ان میں قابل ذکر شرینگل، بریکوٹ، بیاڑ، پاتراک اور کلکوٹ قابل ذکر ہیں۔
باڑ گوئی
باڑ گوئی کی پہاڑی چوٹی تک کشادہ سڑک جاتی ہے، جو تاحال کچی ہے۔ ایم پی اے محمد علی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے جانے کا شکوہ کیا۔ ہمارے دورے سے دو روز قبل محمد علی نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے کی وجہ سے اسمبلی اجلاس سے احتجاجاََ واک آؤٹ بھی کیا تھا۔ نوجوان ایم پی اے نے پشاور یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ممبران کی نسبت وہ آرام دہ کمروں میں آرام کرنے کی بجائے ہر وقت اپنے حلقے میں موجود رہتے ہیں اور حلقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ باڑ گوئی پہاڑی کے ایک جانب ضلع دیر ہے جبکہ دوسری جانب سوات کا تفریحی مقام کالام ہے۔ چوٹی پر پہنچے سے چند سو میٹر پہلے گلیشئر گرنے کے باعث سڑک بند تھی، جس کی وجہ سے کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا۔ پہاڑی چوٹی پر پہنچنے کے بعد بے اختیار زبان سے سبحان اللہ کے کلمات نکلے۔
میری نظروں کے سامنے قدرت کے انمول نمونے تھے۔ نیلگوں آسمان پر چھائے ہوئے سفید بادل یوں لگ رہے تھے جیسے دودھ اُبال کھا رہا ہو۔ ساری وادی سرخ اور نیلے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پہاڑی چوٹیاں سفید اور شفاف برف کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ سطح زمین سے ایک ہزار فٹ بلندی پر ہوا میں معلق چٹان جس پر خودرو پھپھوندی نے مہندی کے رنگ جمائے ہوئے تھے۔ میرے دائیں اور بائیں جانب جنگلی گلاب کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں، ان پر لگے گلابوں کی خوشبو نے گویا سارا منظر مسحور کن بنا دیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جیسے کسی اپنے کی یاد دل کے نہاں خانوں میں دستک دے رہی ہو۔ بہت دور نیچے وادی میں چرواہے کی بانسری کی مدہم سی آواز میرے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہی تھی۔ میرے چاروں جانب خاموشیوں کے پہرے ہیں، خاموشیاں اس قدر گہری کہ شہد کی مکھی کی بھنبھنانے کی آواز بھی کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔
اس وادی کی طلسم میں قید ہونے کو تھا کہ دفعتاََ پہاڑ سے گلیشئر ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی میں خیالات و تصورات سے باہر نکل آیا۔ بے ربط الفاظ کو ترتیب مل گئی، بھٹکتی ہوئی روح کو تسکین مل گئی۔ مگر وہ احساس جوکسی اپنے کے پاس ہونے کا تھا وہ دفعتا کہیں دور غائب ہوگیا۔ چرواہے کی بانسری کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور میری پلکوں کی نمی بحر بیکراں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس پہاڑی چوٹی پر بیٹھے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے، میرے ہم سفر برف کے گولوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے میں مگن تھے، مگر مجھے تو اس وادی کے پھولوں، سبز گھاس اور برف سے نکلتے ہوئے پانی نے اپنی جانب متوجہ کئے رکھا، تفریحی دورے کے سربراہ فیصل جاوید کی جانب سے واپسی کا اعلان ہوا جو سفر کی روایت کے مطابق ماننا پڑا، مگر میرا دل جانے کو قطعاً نہیں مان رہا تھا۔
باقی دوستوں سے الگ ہوکر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے وادی میں جاتے ہوئے گلیشئیر کے ساتھ موج مستی کرنے لگا اور گلیشئیر سے گاڑی کی جانب پھسلتے ہوئے جانے لگا، گوکہ یہ حرکت سراسر بچکانہ لگ رہی تھی مگر اس وادی کا حسن سیاحوں کو واقعی بچہ بننے پر مجبور کردیتا ہے۔ واپسی پر آتے ہوئے اسی وادی میں قائم ایک چراگاہ اتروٹ رکے ہے۔ یہ چراگاہ قدرت کے عظیم شاہکاروں میں سے ایک انمول تحفہ ہے۔ ساری چراگاہ قیمتی جڑی بوٹیوں، خوبصورت اور خوش رنگ پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ سارے نوجوان اس چراگاہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دن کے باقی پل یہاں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اسی چراگاہ میں دریا کنارے کھانا بنایا گیا جوکہ ایک دلچسپ اور یادگار لمحہ تھا۔ دریا کے یخ بستہ پانی میں نہانے کا تجربہ اکثر نوجوانوں کے لئے بالکل نیا تھا، یہی وجہ تھی کہ نہانے کے بعد نوجوان گھنٹوں دھوپ میں سوئے رہے تب جا کر ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آیا۔
نماز عصر کے وقت اس چراگاہ سے واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے دوسرا دن بھی محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کے لئے رکھا گیا تھا، لیکن مقامی افراد نے ریسٹ ہاؤس میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہاں رہنے کی دعوت دی اور یہ دعوت محض اعلانات کی حد تک نہیں تھی بلکہ سختی سے ہمیں اس بارے میں پابند کیا گیا کہ ہم مقامی تحصیل ناظم کے ہاں مہمان بن کر رہیں گے۔ تحصیل ناظم کی معاشی صورت حال اگر دیکھی جائے تو ان کا شمار لوئر مڈل کلاس میں ہوتا ہے، ذریعہ آمدن جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدن ہے مگر حکومت کی جانب سے جنگلات کی کٹائی پر پابندی کی وجہ سے ان کا یہ ذریعہ بھی ختم ہوگیا تھا۔ لیکن موصوف کی مہمان نوازی لاجواب تھی۔ رات ان کے ہاں قیام کے بعد اندازہ ہوا کہ انسان دولت کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کے رویے اور اس کا انسانوں سے برتاؤ اس کے بڑے پن کی نشانی ہے۔ موصوف کو یہ وصف اپنے والد محترم سے وراثت میں ملا تھا، جنہوں نے اپنی تمام جمع پونچی لٹا کر گاؤں کے لوگوں کے لئے ہائیڈرل پاور ہاؤس بنایا جس سے 2 سو کے قریب گھرانوں کو مفت بجلی میسر ہے۔
جہاز بھانڈا
جہاز بھانڈا کے نام کی وجہ شہرت میں نے بیان کردی ہے۔ اس وادی کا یہ حسین ترین مقام ہے۔ اس مقام تک کوئی بھی گاڑی نہیں جاتی۔ اس کا بیس کیمپ جندرئی گاؤں ہے، جہاں پر ایک عجائب گھر بھی ہے۔ جندرئی سے جہاز بھانڈا تک کا کل سفر 12 کلومیٹر ہے جسے مقامی لوگ دو سے اڑھائی گھنٹوں کی پیدل مسافت طے کرکے جاتے ہیں جبکہ غیر مقامی یا میدانی علاقوں کے لوگ چار سے پانچ گھنٹوں میں اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد انسان اپنی ساری تھکان بھول جاتا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی صاف اور شفاف پانی سے بنی ہوئی کٹورا جھیل (کٹورا پانی کے پیالے کو کہتے ہیں، یہ جھیل پانی کے پیالے کی مانند ہے اس لئے اسے کٹورا جھیل کہا جاتا ہے) سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔
جہاز بھانڈا سطح سمندر سے 11 ہزار 5 سو فٹ بلند جگہ ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لئے ایک ریسٹ ہاؤس بھی قائم ہے۔ جہاز بھانڈا سے کٹورا جھیل کا سفر 6 کلومیٹر ہے اور یہاں پہنچنے کے لئے 4 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس جھیل میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکرے یوں لگ رہے ہوتے ہیں جیسے سفید کنول کے کئی کئی فٹ لمبے پھول جھیل میں تیر رہے ہوں، جھیل سے پانی ایک آبشار کی مانند نیچے وادی میں گر رہا ہوتا ہے۔ کٹورا جھیل یا جہاز بھانڈا تک پہنچنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر یہاں پہنچ کر انسان اپنی تھکان بھول کر قدرت کے دلکش نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ سیاحوں کے علاوہ مہم جو افراد کے لئے جہاز بھانڈا اور کٹورا جھیل کا سفر یقیناً یادوں کے ناقابل فراموش لمحات محفوظ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کمراٹ سے بلیک واٹر تک قدرت کے حسین اور انمول شاہکاروں میں میرا تیسرا دن تھا۔ اس دن کا آغاز پختون روایتوں کے امین کوہستانی سلسلے کی مہمان نوازی سے ہوا۔ واپسی پر گرد اْڑاتی سڑک کے دونوں جانب دیو قامت چیڑھ، دیودار، صنوبر اور کائل کے درخت فلمی مناظر پیش کررہے تھے۔ سڑک گرچہ پُر خطر تھی مگر جیپ کا ڈرائیور ماہر تھا۔ جس طرح اس جیپ کو پہاڑوں کی شہزادی کہا جاتا ہے، ایسے میں یہ ڈرائیور اس بپھری ہوئی شہزادی کو قابو میں کرنے کا ہنر بخوبی جانتا تھا۔ گزشتہ 2 دن برف پوش پہاڑوں، جھیلوں، شور مچاتی ندیوں اور پھولوں کے درمیان گزرا، آج کا دن دریائے پنجکوڑا کے ساتھ ساتھ وادی کمراٹ میں گزر رہا تھا۔
چند منٹ دریا کے شور شرابے سے اٹکھیلیاں کرتے گزارے، یخ بستہ پانی کی لہروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا نتیجہ ہاتھوں کے سُن ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑالیکن سچ پوچھیں تو جنگل کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے دریا ایک رومانوی منظر پیش کر رہا تھا۔ درختوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں یوں چھن کر آرہی تھیں جیسے کسی حسینہ کے چہرے پر اس کی زلفیں بکھری ہوئی ہوں اور ہوا ان زلفوں سے شرارت کر رہی ہو۔ دریا کا شور ہی ہے جو اس وادی کا سکوت توڑنے والی واحد شے تھی۔ بل کھاتی ندیاں، شور مچاتا دریا اور مسحور کن آبشاروں کی اس وادی میں ہماری منزل بلیک واٹر یعنی کالا چشمہ تھی۔ اس وادی میں جگہ جگہ قدرت جھک جھک کر استقبال کر رہی ہوتی ہے۔ کمراٹ میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا، مگر تاخیر سے پہنچنے کے باعث محکمہ نے بکنگ منسوخ کردی تھی، چار و ناچار دریا کنارے خیمہ بستی لگائی۔

کمراٹ میں قائم ایک ہوٹل سے رابطہ کیا، چائے پی اور دوپہر اور شام کے کھانے کے لئے ہوٹل کے مالک کو ہدایات دے کر ہم اگلی منزل بلیک واٹر یعنی کالا پانی کی جانب چل پڑے۔ چند ہی قدم کا فاصلہ طے کیا تھا کہ دائیں جانب ایک خوبصورت آبشار دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ ہمارا قافلہ کل سے دو گاڑیوں پر مشتمل ہوگیا تھا، کیوںکہ نوجوانوں کا ایک اور وفد ہمارے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ بس پھر تمام لوگ گاڑیوں سے اتر کر آبشار کی جانب چل پڑے۔ آبشار پر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دور نیچے وادی سے ایک بزرگ کافی تیزی سے ہماری جانب آرہے تھے۔ بزرگ کی تیز رفتاری ہم سب کے لئے حیران کن تھی، 10 سے 15 منٹ میں بزرگ آبشار تک پہنچ گئے، آتے ہی گویا ہوئے آپ لوگوں نے آج دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہے۔ 23 لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، خاص طور پر ایسی جگہ جہاں اپنی لئے کھانے کا سامان پہنچانا دشوار ہو، کھانے سے انکار کیا لیکن بزرگ ہمیں لسی اور چائے پلانے پر مصر تھے۔
خیر بزرگ کی محبت، مہمان نوازی اور چاہت واقعی لاجواب تھی۔ انکار نہیں کیا جا سکا۔ لسی کا گھڑا بزرگ خود لے کر آئے اور ٹھنڈی اور لاجواب لسی سے ہماری تواضع کی، اس کے بعد بزرگ کی جانب سے چائے پلائی گئی، جس کی لذت واقعی لاجواب تھی، کیوںکہ اس میں چاہتوں کی مٹھاس تھی، خلوص کے بے پناہ اثرات تھے۔ سارے دورے کے دوران اس وادی سے چاہتوں کے انمول نمونے پائے مگر اس بزرگ نے پیار، اخلاص اور اپنائیت کے جو انمٹ نقوش ہماری یادوں میں سمو دئیے ہیں ان کے اثرات شاید عمر بھر زائل نہ ہو سکیں۔ وادی کمراٹ آلو کی کاشت کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کا آلو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بھی فروخت کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جوار، گوبھی اور شلغم یہاں کی اہم فصلیں ہیں جن سے یہاں کے لوگ قلیل سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔

ان لوگوں کا زیادہ انحصار جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے جس کی 80 فیصد آمدن یہاں کے مقامی لوگوں کی ہوتی ہے جبکہ 20 فیصد صوبہ خیبر کی حکومت کی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال سے حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدن ختم ہوچکا ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان محکمہ جنگلات کو ہی ہو رہا ہے کیوںکہ پابندی لگنے کے بعد لکڑی کی اسمگلنگ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت جنگلات کی حفاظت کے لئے اگر ایسا اقدام کررہی ہے تو بہتر ہے مگر جنگل میں بارشوں اور برف باری کی وجہ سے گرے ہوئے درخت اٹھانے پر بھی پابندی ہے۔ اس وقت اس وادی میں بارش اور برف باری سے متاثر تقریباََ ایک کروڑ مکعب فٹ قیمتی لکڑی گل سڑھ رہی ہے، جس کا نقصان مقامی لوگوں کے علاوہ حکومت کو بھی ہے۔ ہمارے وفد کے دورے سے ایک دن قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مقامی عمائدین سے مذکرات کے لئے کمراٹ گئے تھے، مگر عمران خان کے ساتھ ان کے مذکرات ناکام ہوگئے تھے۔ آبشار کا نظارہ کرنے اور بزرگ کی بے پناہ محبتیں سمیٹنے کے بعد دوبارہ بلیک واٹر کی سمت روانگی کے لئے چل پڑے۔ محض 2 کلومیٹر مزید سفر طے کیا کہ پہلے آبشار سے زیادہ وسیع اور بلند آبشار نظر آئی، ہر فرد پلک جھپکنے میں آبشار تک پہنچنے کے لئے بے تاب تھا۔ آبشار سے کئی میٹر دور تک اس کا پانی ٹھنڈی پھوار کی مانند آرہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے شبنم برس رہی ہو۔ آبشار کے سامنے پتھر پر ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوکر گہری سانسیں لینا، شاید سالوں یوگا کرنے سے کہیں زیادہ سکون دے رہا تھا۔ پانی آبشار سے اُڑتا ہوا چہروں سے ٹکرا رہا تھا، پانی کا چہرے سے ٹکرانا بہت لطیف احساس دلا رہا تھا، زندگی کو جینے کا جذبہ، چاہتوں کی امید، پیار کی جستجو، اپنوں کے درمیان ہونے کا خیال اور سب سے بڑھ کر دنیا کے جھمیلوں سے دور تمام پریشانیوں سے چھٹکارے کی امید۔
ان پانی کے چھینٹوں میں انسان گھنٹوں بھی بِتا دے تب بھی اس کا جی نہیں بھرتا۔ گھنٹہ بھر یہاں پر سکون اور پر لطف وقت گزارنے کے بعد ایک بار پھر بلیک واٹر کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔ بلیک واٹر وادی کمراٹ کی ایک رومانوی جگہ ہے۔ سڑک مکمل طور پر دریا کنارے تعمیر کی گئی ہے، جبکہ دائیں جانب برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اور جنگل تھے، بلیک واٹر یا کالا پانی کا علاقہ اور اس کے گرد و نواح کے پہاڑ سلاجیت کے لئے مشہور ہیں، تاہم یہاں سے سلاجیت نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے، جبکہ انہیں جنگلات میں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں گچھی، کٹھ، بنفشہ، نیلوفر اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ کالا پانی کا سارا علاقہ لذید مچھلی ٹراؤٹ کے لئے مشہور ہے، وہ الگ بات ہے کہ گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں جال پھینکنے کے باوجود صرف 4 مچھلیاں ہی ہاتھ آسکیں۔
مچھلی کے ناکام شکار کے دوران ہی آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں نے راج کرلیا تھا، کسی بھی وقت آندھی اور طوفان کے ساتھ شدید بارش کا امکان تھا ایسے میں صہیب الدین کاکا خیل کی جانب سے واپسی کا اعلان کیا گیا۔ چار و ناچار واپسی کے لئے گاڑی پر سوار ہوئے، قدرت کے نظاروں سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے جیپ کی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور یوں ہمارا کارواں کمراٹ کی خیمہ بستی میں پہنچ گیا۔ ہوٹل والوں نے ہمارے لئے دوپہر کا کھانا تیار کر رکھا تھا جس پر ہم فوری جھپٹ پڑے اور پلک جھپکنے میں دستر خوان سے تمام اشیاء کا صفایا کردیا۔ نماز مغرب کا وقت ہوا جا رہا تھا اس لئے کھانے کے فوری بعد نماز ادا کی۔ اس دوران مقامی افراد کی جانب سے ہمارے لئے ایک مینڈھے کا انتظام کیا ہوا تھا جسے ذبح کرکے ہم نے خود ہی پکانا تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے ہیں، مینڈھے کو ذبح کیا گیا اور جنگل میں لکڑیاں جلا کر کیمپ فائر کا ماحول بنا دیا۔
تمام نوجوان سیاح درویشوں کی طرح آگ کے الاؤ کے گرد جمع ہوکر خوش گپیوں میں مگن ہوگئے۔ رات کو مینڈھے کے گوشت کے ساتھ پختونوں والا سلوک کیا گیا، تین قسم کے کھانے ایک مینڈھے کے گوشت سے بنائے گئے اور کچھ بچا کر صبح کے ناشتے کے لئے رکھ لئے گئے۔ صبح اس جنت نظیر وادی سے واپسی کی راہ لی اور رات گئے ہم نے مردان میں قیام کیا۔ اس قیام پر بھی ایک تحریر لکھی جاسکتی ہے۔ مردان میں میزبانوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی، سیاحوں کو اس جنت نظیر وادی کا دورہ کرانے میں جہاں ایم این اے محمد علی کی ذاتی دلچسپی تھی وہیں اس میں نوجوان طالب علم داؤد احمد درانی کی خصوصی کوششیں اور روابط بھی شامل تھے، ان کی کوششیں اور انتظامات واقعی لاجواب تھے۔
اگر آپ اس وادی میں جانا چاہتے ہیں تو یہ چند درج ذیل نکات ذہن میں رکھئے!
  • آپ تیمرگیرہ یا دیر بالا تک لوکل بس پر جائیں۔
  • دیر بالا سے جیپ کرائے پر حاصل کریں جس میں جیپ کا ایندھن آپ کے ذمہ ہوگا، جبکہ جیپ کا مالک 4 سے 5 ہزار یومیہ معاوضہ طلب کرسکتا ہے۔
  • جیپ سارے سفر کے دوران 35 سے 40 لیٹر ایندھن استعمال کرے گی۔
  • سفر کے دوران خیمے اور کیمپنگ کا سامان ہمراہ رکھیں۔
  • وادی میں ہوٹلز کم ہیں اکثر اوقات آپ کو خود کھانا بنانا پڑسکتا ہے۔
  • گرم کپڑے چادر وغیرہ لازماً رکھیں۔
  • اگر آپ خاتون ہیں تو سفر کے دوران پردے کا اہتمام کریں اور پختون روایا ت کی پاسداری کا خیال رکھیں۔
  • اگر آپ کا گروہ مرد و خواتین پر مشتمل ہے تو آبادیوں میں ہلا گلا کرنے سے گریز کریں۔
  • کسی بچے کو تحفہ نہ دیں کیوں کہ بچوں کو نقدی کی صورت میں تحفہ یہاں کے لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔
  • یہاں کوہستانی قبیلے کے افراد آباد ہیں مہمان نوازی کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کسی کی دعوت کو ٹھکرا کر اس کی دل آزاری نہ کریں۔
  • تصاویر کشی صرف قدرتی مناظر کی کریں، خواتین کی تصاویر بنانے کی غلطی قطعًا نہ کریں۔
  • اس علاقے میں صرف دو نجی موبائل کمپنیوں کی سروس ہے اس لئے کوشش کریں کہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لئے انہی کمپنیوں کے نمبرز آپ کے پاس موجود ہوں۔
  • موبائل اور کیمرے کا استعمال احتیاط سے کریں کیوںکہ آپ کو چارجنگ کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔

جامع مسجد تھل

سیدامجدحسین بخاری
جامع مسجد تھل، وادی کمراٹ کی ڈیڑھ سو سالہ قدیم جامع مسجد ہے۔ اِس مسجد کی تعمیر پہلی مرتبہ 1865ء میں کی گئی جبکہ 1930ء میں آتشزدگی کی وجہ سے اس مسجد کا کچھ حصہ جل کر راکھ ہوگیا تھا۔ مقامی افراد نے 1935ء میں اس کی دوبارہ تعمیر کی تاہم اس کا اکثر حصہ پرانا ہی ہے۔



اِس مسجد کی منفرد حیثیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دیودار کی بنی ہوئی 45 فٹ لمبی اور 1.5×1.5 فٹ چوڑی شہتیر بغیر کسی جوڑ کر لگائی گئی ہے۔ اس کے شہتیروں کو 2×2 فٹ چوڑے اور 8 فٹ بلند دیودار کے ستونوں سے سہارا دیا گیا ہے۔


ان ستونوں پر بہترین نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو کہ علاقائی فن تعمیر اور نقش و نگاری کا شاہکار ہیں۔ مسجد کی بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔


جبکہ اس میں بھی بہترین نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی دیواریں اور چھت بھی اخروٹ کی لکڑی سے تعمیر کی گئی ہیں اور ان پر بھی نقش و نگاری کنندہ ہے۔
مسجد علاقے کی سادگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، دریائے پنجکوڑا کے پانی سے یہاں نمازی وضو کرتے ہیں جبکہ یہ دریا اس مسجد کو مزید خوبصورت بنا رہا ہے۔

مسجد کے اندر ایک خوبصورت انگیٹھی بنائی گئی ہے جو سردیوں میں نمازیوں کو حرارت مہیا کرتی ہے۔ وادی کمراٹ میں تفریح کی غرض سے آنے والے سیاح اس مسجد کے حصار میں کھو جاتے ہیں۔