مناظر

Wednesday 31 July 2019

وادی کمراٹ، جہاں قدرت گلے ملتی ہے

سیدامجدحسین بخاری
زندگی میں بعض اوقات انسان کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں، جن پر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ یہ موقع اسے پہلے میسر کیوں نہیں آیا۔ اپنی زندگی میں مجھے قدرت نے سارا پاکستان دیکھنے اور گھومنے کا موقع دیا۔ اس حسین وطن کے جنگل گھوما، صحراؤں کی خاک چھانی، سمندر کی سیپیوں سے سرگوشیاں کیں، پہاڑوں سے ہم کلام ہوا، ندیوں کے نغمے سنے اور جھیلوں کے کنول چنے، لہلہاتے میدان دیکھے تو بل کھاتے دریاؤں سے لطف اندوز ہوا، مگر گزشتہ ہفتے گلوبل ویلیج کی سرحدوں سے پرے ایک خاموش وادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر دیر میں واقع یہ وادی ابھی تک پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔
یہ بھی خیال رہے کہ نوجوانوں کا ایک وفد اسی وادی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کی دعوت پر اس وادی کا دورہ کر رہا ہے۔ اسی وفد میں راقم بھی شامل ہے۔ لاہور سے تیمرگرہ تک کا سفر نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس پر کیا۔ بس میں سوار ہوتے ہی اس خطے کی ثقافت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے۔ جناب موسیقی کی دھنوں سے کوسوں دور پشتو شاعری بس میں سنائی دے رہی تھی، مگر کچھ دیر بعد یہ شاعری بھی بند کردی گئی۔ بس رکنے اور چلنے کا اعلان بھی پشتو میں ہور ہا تھا جو کہ ہماری سمجھ سے بالا تھا۔ تاہم ہمارے وفد میں موجود پشتون نوجوان ترجمانی کا فرض بخوبی نبھا رہے تھے۔ لاہور سے تیمرگرہ 12 گھنٹوں پر محیط سفر ہے، اس سفر کے دوران اپنی شناختی دستاویزات ہمراہ رکھنا لازمی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی پاکستان آرمی کی جانب سے قائم کی گئی چیک پوسٹس پر شناختی کارڈز کی چیکنگ ہوتی ہے۔
تیمر گرہ سے اپر دیر تک ایک کشادہ سڑک جاتی ہے، مگر اس سڑک پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے، اس سڑک سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ لاہور کی مال روڈ سے جا رہے ہوں۔ تیمرگرہ سے اپر دیر پہنچنے تک راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے بازار آتے ہیں۔ ڈاب، رباط، خال، شلفم، طورمنگ، اُنکار، خاگرام، آمین آباد، واڑی، وحید آباد اور داروڑہ اہم بازار ہیں۔ دیر بالا کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 5 سو میٹر قبل ایک شاہراہ اس حسین اور دل کش وادی کی جانب جاتی ہے۔ سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی جو دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ جاتی، پہاڑوں کے درمیان سے یہ بل کھاتی سڑک بہت ہی حسین مناظر کی امین ہے۔ اسی سڑک پر پہلا پڑاؤ ایک خوبصورت وادی شرینگل میں ہوتا ہے، یہاں پر خوبصورت بازار اور ایک چھوٹا سا شہر بھی آباد ہے، جب کہ یہاں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے۔
یونیورسٹی شہر کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے بنائی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے تبدیلی کے دعوؤں کے برعکس اس یونیورسٹی کی حالت زار قابل رحم ہے۔ یونیورسٹی کے حال پر ایک تحریر انشاءاللہ ضرور لکھی جائے گی۔ شرینگل کے بعد پاتراک کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں طالبات کے لئے ایک مڈل اسکول اور طلبہ کے لئے ہائی اسکول قائم ہے۔ یہاں پر ٹراؤٹ فش کا ایک فارم بھی ہے جو کہ سرکاری طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ پالی تو جاتی ہے مگر بڑے ہونے کے بعد ٹراؤٹ جاتی کہاں ہے؟ وہاں موجود کسی بھی شخص نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ پاتراک سے اگلا پڑاؤ تھل میں ہوتا ہے، تھل کو وادی کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ تھل 2 سو سال سے آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں کوہستانی قوم کے افراد آباد ہیں۔ یہاں طلبہ اور طالبات کے لئے علیحدہ علیحدہ پرائمری اسکول قائم ہیں۔ طالبات صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ طلبہ کا رحجان ہائر ایجوکیشن کی جانب زیادہ ہے۔
یہاں سوشیالوجی کے دو طالب علموں سے ملاقات ہوئی، نوجوانوں سے گفتگو کے دوران اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ اپنی روایات سے عاری بس میڈیا کے سہارے چلنے والے نوجوان تھے۔ تھل سے اس وادی کیلئے 2 راستے نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی کمراٹ کو جاتا ہے جہاں قدم قدم پر قدرت کے کرشمے انسانوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب جہاز بھانڈا (بھانڈا پشتو زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پہاڑوں پر 15 سے 20 گھر ہوں اور اس جگہ کو جہاز بھانڈا مقامی لوگوں کے مطابق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ جہاز جتنی بلند جگہ ہے) اور باڑ گوئی کا پہاڑ ہے۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے پہلے دو دن جہاز بھانڈا اور باڑ گوئی کے پہاڑ کے دورے کیلئے مختص تھے۔
تیمرہ گرہ سے تھل تک سفر کے لیے سڑک پر تعمیرانی کام جاری تھا جس کی وجہ سے سفر میں سات گھنٹے لگے۔ تھل شہر میں حکومت کی بنائی ہوئی سڑک اور پرائمری اسکول کے علاوہ کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی، یہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پن بجلی کے پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں، تھل میں یہاں کی 150 سالہ پرانی مسجد ہے۔ دریا کنارے آباد یہ چھوٹا سا قصبہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے، جس طرح یہ قصبہ خوبصورت ہے اسی طرح یہاں کے لوگ محبتیں بکھیرنے والے، پیار کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔ اجنبی کو دیکھ کر بے اختیار ان کے ہاتھ سلام کے ساتھ مصافحہ کیلئے بلند ہوجاتے ہیں۔ آپ گاڑی پر ہوں یا پیدل ہر چھوٹا، بڑا، نوجوان اور بوڑھا ہاتھ بلند کرکے آپ کو السلام و علیکم کہے گا۔ اسی لئے دوران سفر ڈائری میں اس وادی کا نام میں نے وادیِ السلام علیکم لکھا۔
تھل سے ہماری اگلی منزل باڑ گوئی کے جنگلات میں بنایا گیا محکمہ جنگلات کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس تھا، رات ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد مقامی افراد کے مشورے کے بعد باڑ گوئی کی پہاڑی پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ دیر بالا سے تھل پہنچنے تک جو گاؤں یا قصبے آتے ہیں ان میں قابل ذکر شرینگل، بریکوٹ، بیاڑ، پاتراک اور کلکوٹ قابل ذکر ہیں۔
باڑ گوئی
باڑ گوئی کی پہاڑی چوٹی تک کشادہ سڑک جاتی ہے، جو تاحال کچی ہے۔ ایم پی اے محمد علی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے جانے کا شکوہ کیا۔ ہمارے دورے سے دو روز قبل محمد علی نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے کی وجہ سے اسمبلی اجلاس سے احتجاجاََ واک آؤٹ بھی کیا تھا۔ نوجوان ایم پی اے نے پشاور یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ممبران کی نسبت وہ آرام دہ کمروں میں آرام کرنے کی بجائے ہر وقت اپنے حلقے میں موجود رہتے ہیں اور حلقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ باڑ گوئی پہاڑی کے ایک جانب ضلع دیر ہے جبکہ دوسری جانب سوات کا تفریحی مقام کالام ہے۔ چوٹی پر پہنچے سے چند سو میٹر پہلے گلیشئر گرنے کے باعث سڑک بند تھی، جس کی وجہ سے کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا۔ پہاڑی چوٹی پر پہنچنے کے بعد بے اختیار زبان سے سبحان اللہ کے کلمات نکلے۔
میری نظروں کے سامنے قدرت کے انمول نمونے تھے۔ نیلگوں آسمان پر چھائے ہوئے سفید بادل یوں لگ رہے تھے جیسے دودھ اُبال کھا رہا ہو۔ ساری وادی سرخ اور نیلے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پہاڑی چوٹیاں سفید اور شفاف برف کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ سطح زمین سے ایک ہزار فٹ بلندی پر ہوا میں معلق چٹان جس پر خودرو پھپھوندی نے مہندی کے رنگ جمائے ہوئے تھے۔ میرے دائیں اور بائیں جانب جنگلی گلاب کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں، ان پر لگے گلابوں کی خوشبو نے گویا سارا منظر مسحور کن بنا دیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جیسے کسی اپنے کی یاد دل کے نہاں خانوں میں دستک دے رہی ہو۔ بہت دور نیچے وادی میں چرواہے کی بانسری کی مدہم سی آواز میرے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہی تھی۔ میرے چاروں جانب خاموشیوں کے پہرے ہیں، خاموشیاں اس قدر گہری کہ شہد کی مکھی کی بھنبھنانے کی آواز بھی کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔
اس وادی کی طلسم میں قید ہونے کو تھا کہ دفعتاََ پہاڑ سے گلیشئر ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی میں خیالات و تصورات سے باہر نکل آیا۔ بے ربط الفاظ کو ترتیب مل گئی، بھٹکتی ہوئی روح کو تسکین مل گئی۔ مگر وہ احساس جوکسی اپنے کے پاس ہونے کا تھا وہ دفعتا کہیں دور غائب ہوگیا۔ چرواہے کی بانسری کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور میری پلکوں کی نمی بحر بیکراں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس پہاڑی چوٹی پر بیٹھے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے، میرے ہم سفر برف کے گولوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے میں مگن تھے، مگر مجھے تو اس وادی کے پھولوں، سبز گھاس اور برف سے نکلتے ہوئے پانی نے اپنی جانب متوجہ کئے رکھا، تفریحی دورے کے سربراہ فیصل جاوید کی جانب سے واپسی کا اعلان ہوا جو سفر کی روایت کے مطابق ماننا پڑا، مگر میرا دل جانے کو قطعاً نہیں مان رہا تھا۔
باقی دوستوں سے الگ ہوکر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے وادی میں جاتے ہوئے گلیشئیر کے ساتھ موج مستی کرنے لگا اور گلیشئیر سے گاڑی کی جانب پھسلتے ہوئے جانے لگا، گوکہ یہ حرکت سراسر بچکانہ لگ رہی تھی مگر اس وادی کا حسن سیاحوں کو واقعی بچہ بننے پر مجبور کردیتا ہے۔ واپسی پر آتے ہوئے اسی وادی میں قائم ایک چراگاہ اتروٹ رکے ہے۔ یہ چراگاہ قدرت کے عظیم شاہکاروں میں سے ایک انمول تحفہ ہے۔ ساری چراگاہ قیمتی جڑی بوٹیوں، خوبصورت اور خوش رنگ پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ سارے نوجوان اس چراگاہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دن کے باقی پل یہاں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اسی چراگاہ میں دریا کنارے کھانا بنایا گیا جوکہ ایک دلچسپ اور یادگار لمحہ تھا۔ دریا کے یخ بستہ پانی میں نہانے کا تجربہ اکثر نوجوانوں کے لئے بالکل نیا تھا، یہی وجہ تھی کہ نہانے کے بعد نوجوان گھنٹوں دھوپ میں سوئے رہے تب جا کر ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آیا۔
نماز عصر کے وقت اس چراگاہ سے واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے دوسرا دن بھی محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کے لئے رکھا گیا تھا، لیکن مقامی افراد نے ریسٹ ہاؤس میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہاں رہنے کی دعوت دی اور یہ دعوت محض اعلانات کی حد تک نہیں تھی بلکہ سختی سے ہمیں اس بارے میں پابند کیا گیا کہ ہم مقامی تحصیل ناظم کے ہاں مہمان بن کر رہیں گے۔ تحصیل ناظم کی معاشی صورت حال اگر دیکھی جائے تو ان کا شمار لوئر مڈل کلاس میں ہوتا ہے، ذریعہ آمدن جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدن ہے مگر حکومت کی جانب سے جنگلات کی کٹائی پر پابندی کی وجہ سے ان کا یہ ذریعہ بھی ختم ہوگیا تھا۔ لیکن موصوف کی مہمان نوازی لاجواب تھی۔ رات ان کے ہاں قیام کے بعد اندازہ ہوا کہ انسان دولت کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کے رویے اور اس کا انسانوں سے برتاؤ اس کے بڑے پن کی نشانی ہے۔ موصوف کو یہ وصف اپنے والد محترم سے وراثت میں ملا تھا، جنہوں نے اپنی تمام جمع پونچی لٹا کر گاؤں کے لوگوں کے لئے ہائیڈرل پاور ہاؤس بنایا جس سے 2 سو کے قریب گھرانوں کو مفت بجلی میسر ہے۔
جہاز بھانڈا
جہاز بھانڈا کے نام کی وجہ شہرت میں نے بیان کردی ہے۔ اس وادی کا یہ حسین ترین مقام ہے۔ اس مقام تک کوئی بھی گاڑی نہیں جاتی۔ اس کا بیس کیمپ جندرئی گاؤں ہے، جہاں پر ایک عجائب گھر بھی ہے۔ جندرئی سے جہاز بھانڈا تک کا کل سفر 12 کلومیٹر ہے جسے مقامی لوگ دو سے اڑھائی گھنٹوں کی پیدل مسافت طے کرکے جاتے ہیں جبکہ غیر مقامی یا میدانی علاقوں کے لوگ چار سے پانچ گھنٹوں میں اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد انسان اپنی ساری تھکان بھول جاتا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی صاف اور شفاف پانی سے بنی ہوئی کٹورا جھیل (کٹورا پانی کے پیالے کو کہتے ہیں، یہ جھیل پانی کے پیالے کی مانند ہے اس لئے اسے کٹورا جھیل کہا جاتا ہے) سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔
جہاز بھانڈا سطح سمندر سے 11 ہزار 5 سو فٹ بلند جگہ ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لئے ایک ریسٹ ہاؤس بھی قائم ہے۔ جہاز بھانڈا سے کٹورا جھیل کا سفر 6 کلومیٹر ہے اور یہاں پہنچنے کے لئے 4 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس جھیل میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکرے یوں لگ رہے ہوتے ہیں جیسے سفید کنول کے کئی کئی فٹ لمبے پھول جھیل میں تیر رہے ہوں، جھیل سے پانی ایک آبشار کی مانند نیچے وادی میں گر رہا ہوتا ہے۔ کٹورا جھیل یا جہاز بھانڈا تک پہنچنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر یہاں پہنچ کر انسان اپنی تھکان بھول کر قدرت کے دلکش نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ سیاحوں کے علاوہ مہم جو افراد کے لئے جہاز بھانڈا اور کٹورا جھیل کا سفر یقیناً یادوں کے ناقابل فراموش لمحات محفوظ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کمراٹ سے بلیک واٹر تک قدرت کے حسین اور انمول شاہکاروں میں میرا تیسرا دن تھا۔ اس دن کا آغاز پختون روایتوں کے امین کوہستانی سلسلے کی مہمان نوازی سے ہوا۔ واپسی پر گرد اْڑاتی سڑک کے دونوں جانب دیو قامت چیڑھ، دیودار، صنوبر اور کائل کے درخت فلمی مناظر پیش کررہے تھے۔ سڑک گرچہ پُر خطر تھی مگر جیپ کا ڈرائیور ماہر تھا۔ جس طرح اس جیپ کو پہاڑوں کی شہزادی کہا جاتا ہے، ایسے میں یہ ڈرائیور اس بپھری ہوئی شہزادی کو قابو میں کرنے کا ہنر بخوبی جانتا تھا۔ گزشتہ 2 دن برف پوش پہاڑوں، جھیلوں، شور مچاتی ندیوں اور پھولوں کے درمیان گزرا، آج کا دن دریائے پنجکوڑا کے ساتھ ساتھ وادی کمراٹ میں گزر رہا تھا۔
چند منٹ دریا کے شور شرابے سے اٹکھیلیاں کرتے گزارے، یخ بستہ پانی کی لہروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا نتیجہ ہاتھوں کے سُن ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑالیکن سچ پوچھیں تو جنگل کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے دریا ایک رومانوی منظر پیش کر رہا تھا۔ درختوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں یوں چھن کر آرہی تھیں جیسے کسی حسینہ کے چہرے پر اس کی زلفیں بکھری ہوئی ہوں اور ہوا ان زلفوں سے شرارت کر رہی ہو۔ دریا کا شور ہی ہے جو اس وادی کا سکوت توڑنے والی واحد شے تھی۔ بل کھاتی ندیاں، شور مچاتا دریا اور مسحور کن آبشاروں کی اس وادی میں ہماری منزل بلیک واٹر یعنی کالا چشمہ تھی۔ اس وادی میں جگہ جگہ قدرت جھک جھک کر استقبال کر رہی ہوتی ہے۔ کمراٹ میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا، مگر تاخیر سے پہنچنے کے باعث محکمہ نے بکنگ منسوخ کردی تھی، چار و ناچار دریا کنارے خیمہ بستی لگائی۔

کمراٹ میں قائم ایک ہوٹل سے رابطہ کیا، چائے پی اور دوپہر اور شام کے کھانے کے لئے ہوٹل کے مالک کو ہدایات دے کر ہم اگلی منزل بلیک واٹر یعنی کالا پانی کی جانب چل پڑے۔ چند ہی قدم کا فاصلہ طے کیا تھا کہ دائیں جانب ایک خوبصورت آبشار دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ ہمارا قافلہ کل سے دو گاڑیوں پر مشتمل ہوگیا تھا، کیوںکہ نوجوانوں کا ایک اور وفد ہمارے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ بس پھر تمام لوگ گاڑیوں سے اتر کر آبشار کی جانب چل پڑے۔ آبشار پر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دور نیچے وادی سے ایک بزرگ کافی تیزی سے ہماری جانب آرہے تھے۔ بزرگ کی تیز رفتاری ہم سب کے لئے حیران کن تھی، 10 سے 15 منٹ میں بزرگ آبشار تک پہنچ گئے، آتے ہی گویا ہوئے آپ لوگوں نے آج دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہے۔ 23 لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، خاص طور پر ایسی جگہ جہاں اپنی لئے کھانے کا سامان پہنچانا دشوار ہو، کھانے سے انکار کیا لیکن بزرگ ہمیں لسی اور چائے پلانے پر مصر تھے۔
خیر بزرگ کی محبت، مہمان نوازی اور چاہت واقعی لاجواب تھی۔ انکار نہیں کیا جا سکا۔ لسی کا گھڑا بزرگ خود لے کر آئے اور ٹھنڈی اور لاجواب لسی سے ہماری تواضع کی، اس کے بعد بزرگ کی جانب سے چائے پلائی گئی، جس کی لذت واقعی لاجواب تھی، کیوںکہ اس میں چاہتوں کی مٹھاس تھی، خلوص کے بے پناہ اثرات تھے۔ سارے دورے کے دوران اس وادی سے چاہتوں کے انمول نمونے پائے مگر اس بزرگ نے پیار، اخلاص اور اپنائیت کے جو انمٹ نقوش ہماری یادوں میں سمو دئیے ہیں ان کے اثرات شاید عمر بھر زائل نہ ہو سکیں۔ وادی کمراٹ آلو کی کاشت کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کا آلو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بھی فروخت کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جوار، گوبھی اور شلغم یہاں کی اہم فصلیں ہیں جن سے یہاں کے لوگ قلیل سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔

ان لوگوں کا زیادہ انحصار جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے جس کی 80 فیصد آمدن یہاں کے مقامی لوگوں کی ہوتی ہے جبکہ 20 فیصد صوبہ خیبر کی حکومت کی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال سے حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدن ختم ہوچکا ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان محکمہ جنگلات کو ہی ہو رہا ہے کیوںکہ پابندی لگنے کے بعد لکڑی کی اسمگلنگ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت جنگلات کی حفاظت کے لئے اگر ایسا اقدام کررہی ہے تو بہتر ہے مگر جنگل میں بارشوں اور برف باری کی وجہ سے گرے ہوئے درخت اٹھانے پر بھی پابندی ہے۔ اس وقت اس وادی میں بارش اور برف باری سے متاثر تقریباََ ایک کروڑ مکعب فٹ قیمتی لکڑی گل سڑھ رہی ہے، جس کا نقصان مقامی لوگوں کے علاوہ حکومت کو بھی ہے۔ ہمارے وفد کے دورے سے ایک دن قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مقامی عمائدین سے مذکرات کے لئے کمراٹ گئے تھے، مگر عمران خان کے ساتھ ان کے مذکرات ناکام ہوگئے تھے۔ آبشار کا نظارہ کرنے اور بزرگ کی بے پناہ محبتیں سمیٹنے کے بعد دوبارہ بلیک واٹر کی سمت روانگی کے لئے چل پڑے۔ محض 2 کلومیٹر مزید سفر طے کیا کہ پہلے آبشار سے زیادہ وسیع اور بلند آبشار نظر آئی، ہر فرد پلک جھپکنے میں آبشار تک پہنچنے کے لئے بے تاب تھا۔ آبشار سے کئی میٹر دور تک اس کا پانی ٹھنڈی پھوار کی مانند آرہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے شبنم برس رہی ہو۔ آبشار کے سامنے پتھر پر ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوکر گہری سانسیں لینا، شاید سالوں یوگا کرنے سے کہیں زیادہ سکون دے رہا تھا۔ پانی آبشار سے اُڑتا ہوا چہروں سے ٹکرا رہا تھا، پانی کا چہرے سے ٹکرانا بہت لطیف احساس دلا رہا تھا، زندگی کو جینے کا جذبہ، چاہتوں کی امید، پیار کی جستجو، اپنوں کے درمیان ہونے کا خیال اور سب سے بڑھ کر دنیا کے جھمیلوں سے دور تمام پریشانیوں سے چھٹکارے کی امید۔
ان پانی کے چھینٹوں میں انسان گھنٹوں بھی بِتا دے تب بھی اس کا جی نہیں بھرتا۔ گھنٹہ بھر یہاں پر سکون اور پر لطف وقت گزارنے کے بعد ایک بار پھر بلیک واٹر کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔ بلیک واٹر وادی کمراٹ کی ایک رومانوی جگہ ہے۔ سڑک مکمل طور پر دریا کنارے تعمیر کی گئی ہے، جبکہ دائیں جانب برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اور جنگل تھے، بلیک واٹر یا کالا پانی کا علاقہ اور اس کے گرد و نواح کے پہاڑ سلاجیت کے لئے مشہور ہیں، تاہم یہاں سے سلاجیت نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے، جبکہ انہیں جنگلات میں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں گچھی، کٹھ، بنفشہ، نیلوفر اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ کالا پانی کا سارا علاقہ لذید مچھلی ٹراؤٹ کے لئے مشہور ہے، وہ الگ بات ہے کہ گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں جال پھینکنے کے باوجود صرف 4 مچھلیاں ہی ہاتھ آسکیں۔
مچھلی کے ناکام شکار کے دوران ہی آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں نے راج کرلیا تھا، کسی بھی وقت آندھی اور طوفان کے ساتھ شدید بارش کا امکان تھا ایسے میں صہیب الدین کاکا خیل کی جانب سے واپسی کا اعلان کیا گیا۔ چار و ناچار واپسی کے لئے گاڑی پر سوار ہوئے، قدرت کے نظاروں سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے جیپ کی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور یوں ہمارا کارواں کمراٹ کی خیمہ بستی میں پہنچ گیا۔ ہوٹل والوں نے ہمارے لئے دوپہر کا کھانا تیار کر رکھا تھا جس پر ہم فوری جھپٹ پڑے اور پلک جھپکنے میں دستر خوان سے تمام اشیاء کا صفایا کردیا۔ نماز مغرب کا وقت ہوا جا رہا تھا اس لئے کھانے کے فوری بعد نماز ادا کی۔ اس دوران مقامی افراد کی جانب سے ہمارے لئے ایک مینڈھے کا انتظام کیا ہوا تھا جسے ذبح کرکے ہم نے خود ہی پکانا تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے ہیں، مینڈھے کو ذبح کیا گیا اور جنگل میں لکڑیاں جلا کر کیمپ فائر کا ماحول بنا دیا۔
تمام نوجوان سیاح درویشوں کی طرح آگ کے الاؤ کے گرد جمع ہوکر خوش گپیوں میں مگن ہوگئے۔ رات کو مینڈھے کے گوشت کے ساتھ پختونوں والا سلوک کیا گیا، تین قسم کے کھانے ایک مینڈھے کے گوشت سے بنائے گئے اور کچھ بچا کر صبح کے ناشتے کے لئے رکھ لئے گئے۔ صبح اس جنت نظیر وادی سے واپسی کی راہ لی اور رات گئے ہم نے مردان میں قیام کیا۔ اس قیام پر بھی ایک تحریر لکھی جاسکتی ہے۔ مردان میں میزبانوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی، سیاحوں کو اس جنت نظیر وادی کا دورہ کرانے میں جہاں ایم این اے محمد علی کی ذاتی دلچسپی تھی وہیں اس میں نوجوان طالب علم داؤد احمد درانی کی خصوصی کوششیں اور روابط بھی شامل تھے، ان کی کوششیں اور انتظامات واقعی لاجواب تھے۔
اگر آپ اس وادی میں جانا چاہتے ہیں تو یہ چند درج ذیل نکات ذہن میں رکھئے!
  • آپ تیمرگیرہ یا دیر بالا تک لوکل بس پر جائیں۔
  • دیر بالا سے جیپ کرائے پر حاصل کریں جس میں جیپ کا ایندھن آپ کے ذمہ ہوگا، جبکہ جیپ کا مالک 4 سے 5 ہزار یومیہ معاوضہ طلب کرسکتا ہے۔
  • جیپ سارے سفر کے دوران 35 سے 40 لیٹر ایندھن استعمال کرے گی۔
  • سفر کے دوران خیمے اور کیمپنگ کا سامان ہمراہ رکھیں۔
  • وادی میں ہوٹلز کم ہیں اکثر اوقات آپ کو خود کھانا بنانا پڑسکتا ہے۔
  • گرم کپڑے چادر وغیرہ لازماً رکھیں۔
  • اگر آپ خاتون ہیں تو سفر کے دوران پردے کا اہتمام کریں اور پختون روایا ت کی پاسداری کا خیال رکھیں۔
  • اگر آپ کا گروہ مرد و خواتین پر مشتمل ہے تو آبادیوں میں ہلا گلا کرنے سے گریز کریں۔
  • کسی بچے کو تحفہ نہ دیں کیوں کہ بچوں کو نقدی کی صورت میں تحفہ یہاں کے لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔
  • یہاں کوہستانی قبیلے کے افراد آباد ہیں مہمان نوازی کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کسی کی دعوت کو ٹھکرا کر اس کی دل آزاری نہ کریں۔
  • تصاویر کشی صرف قدرتی مناظر کی کریں، خواتین کی تصاویر بنانے کی غلطی قطعًا نہ کریں۔
  • اس علاقے میں صرف دو نجی موبائل کمپنیوں کی سروس ہے اس لئے کوشش کریں کہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لئے انہی کمپنیوں کے نمبرز آپ کے پاس موجود ہوں۔
  • موبائل اور کیمرے کا استعمال احتیاط سے کریں کیوںکہ آپ کو چارجنگ کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment