مناظر

Tuesday, 16 June 2015

باب الاسلام کا نصاب تعلیم، اسلامی تعلیمات سے انحراف

تعلیم کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا باعث ہوتی ہے ۔ یہی تعلیم معاشروں کی شکست و ریخت کا موجب بھی بنتی ہے ۔پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے جس میں شرح تعلیم شرمناک حد تک کم ہے ۔ تعلیم کے شعبے کے ساتھ ناانصافی قیام پاکستان کے وقت سے ہی روا رکھی گئی ہے ، ستم بالائے ستم شعبہ تعلیم کو ہمیشہ تجربات کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ہے اور اس شعبے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ معصوم اذہان کو تختہ ستم بنایا جارہا ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس شعبے کی جانب توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا ۔نصاب تعلیم کی تیاری ایک مہارت والا شعبہ اور محنت طلب کا م ہے۔ جس میں یکسانیات اور یگانگت وقت کے ساتھ ساتھ ہونا لازمی ہے۔ گذشتہ حکومت نے 2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کردیا جس کی وجہ سے جہاں ایک جانب جامع اور متفقہ تعلیمی پالیسی ختم ہوئے وہاں ملکی وحدت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ غیر ملکی این جی اوز کا اثر و رسوخ کافی حد تک تعلیمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوا ، جس کی مثال صوبہ پنجاب میں نصابی تبدیلیاں ہیں ، دو سال قبل پنجاب کے نصاب تعلیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں اور نصاب کی تیاری ملکی ماہر تعلیم کی بجائے غیر ملکی افراد سے کروائی گئی۔ مذہبی طبقات، سول سوسائٹیز، اساتذہ اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی گئی، گذشتہ سال خیبر پختونخواہ کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی نے بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ خیبر پختونخواہ حکومت طلبہ کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک کے بعد نصاب کی تبدیلی کو واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ 

صوبہ سندھ میں تعلیم کی ناگفتہ بہ حالت پورے ملک کے سامنے ہے، گھوسٹ اسکول، عمارتوں کے بغیر تعلیمی ادارے اور اکثر تعلیمی اداروں پر وڈیروں کے قبضے کے حوالے سے آئے روز خبریں ملکی میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں مگر نئے سیشن میں سندھ حکومت نے بھی پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کی حکومتوں کی پیروی کرتے ہوئے نصاب کی تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ صوبہ سندھ کا نصاب تعلیم صوبائی ماہرین تعلیم کی بجائے غیر ملکی اور غیر معروف افراد سے تیار کروایاگیا جو سراسر معصوم اذہان میں سیکولر انتہاپسندی کو فروغ دینے کی ایک کوشش تھا۔ باقی صوبوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے نامور اور محب وطن ماہرین تعلیم کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یو ایس ایڈ کی جانب سے متعین کردہ آسٹریلوی نژاد خاتون ٹیچر ٹرینر سے اول سے ہشتم تک کا نصاب تیار کروایا گیا ہے۔’’دی ایم انسیٹیوٹ فار ایجوکیشن کی ڈائریکٹر پروفیسر برناڈیٹ لوئیس ڈین (Bernadette Louise Dean)نصاب تعلیم میں تبدیلی کی انچارج ہیں ۔ انہوں نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کا نصاب تعلیم، نصابی کتب اور نصابی مشقیں پاکستان میں تشدد کے فروغ کی وجہ ہیں۔وہ نصاب کی تبدیلی کے بارے میں لکھتی ہیں کہ اسلامیات، مطالعہ پاکستان ، اردو اور معاشرتی علوم کے نصاب میں تبدیلی تشدد کے خاتمے کے لئے ضروری ہیں۔ (http://www.vmie.org.pk/sitemap/news-and-events/) ۔جبکہ ایک ورکشاپ میں مذکورہ خاتون متنازعہ گفتگو کرنے کے بعد اساتذہ کی جانب سے شدید غیض و غضب کا سامنا کر چکی ہیں جس کے بعد امریکن این جی او نے مذکورہ خاتون پر پابندی لگا دی ۔جماعت چہارم کی معاشرتی علوم کی کتاب سے نبی مہربان ﷺ اور خلفائے راشدین کے ابواب ختم کردئیے گئے ہیں۔کلاس دوم کی اردو کی کتاب کے صفحہ نمبر164پر بچوں کو دین موسوی کی دس تعلیمات کے موضوع میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خاوند اور بیوی کا تعلق کیا ہے اور بیوی کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلقات استوار نہ کئے جائیں۔ کلاس دوم ہی کی کتاب میں مرد کو اپنی بیٹی سے گلے ملتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔کلاس سوم کے بچوں کو یہ سکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔کلاس چہارم کے بچوں کو یہ بتایا گیا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ کم عمری میں شادی اور زیادہ بچوں کی خواہش ہے۔ اور اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرنا لازمی ہے۔نبی مہربان اور خلفائے راشدین کی جگہ ملالہ اور اقبال مسیح جیسے متنازعہ کرداروں کو شامل کرنا مضحکہ خیز ہے۔ نصاب تعلیم میں مشہور اسلامی شخصیات اور سیرت و کردار پر ایسے افراد کو ترجیح دی جارہی ہے جو مغرب زدہ اور اسلامی اقدار کے مخالف ہیں۔ جماعت چہارم کی کتاب میں ’’ذرائع ابلاغ ‘‘ کے موضوع پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بجائے سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس کے بارے میں کھل کر بتایا گیا ہے اور اس میں گپ بازی کی اہمیت سے کماحقہ روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔کتابوں کو مختصر کرکے ان میں چودہ ابواب کی بجائے دس ابواب کو شامل کیا گیا ہے جن میں سیرت نبوی ؐ اور خلفائے راشدین کے ابواب کو ختم کردیا گیا ہے۔اسی کتاب میں ’’دوسروں سے برتاؤ‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے ناقابل فہم اور تشدد کو فروغ دینے والے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ نصاب تعلیم آزمائشی بنیادوں پر تیار گیا ہے اور یہ اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں اور شہری علاقوں کے مخصوص تعلیمی اداروں میں پڑھایا جارہا ہے۔ 

نصاب تعلیم میں تبدیلی سے لگ ایسا رہا کہ آزمائشی نصاب کے نام پر پاکستان کے قومی تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے ۔سندھ حکومت غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کی سعی لاحاصل کررہی۔ اسلامی شخصیات اور مشاہیر کے مضامین خارج کرکے متنازعہ شخصیات ، سیکولر اور مغرب زدہ شخصیات کو شامل کئے جانے پر اساتذہ اور محب وطن پاکستانیوں میں شدید پریشانی پائی جارہی ہے اور یہ پریشانی عوامی غیض و غصب میں تبدیل ہوتے ہوئے وقت نہیں لگے گا۔نصاب میں تبدیلی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے مگر نسل نو کے معصوم اذہان میں دین سے بیزاری ، لادینیت اور نفرت کا بیج بونا ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ حکومت سندھ کے ان اقدامات کے خلاف طلبہ و اساتذہ کی تنظیمیں کسی حد تک مزاحمت تو

کررہی ہیں مگر یہ کوششیں بظاہر رائیگاں ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ، ملکی ماہرین تعلیم کو نظر انداز کرنا اور غیر ملکی افراد کو کھلی چھٹی دینا تعلیم اور قوم کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیقاتی بورڈ قائم کرکے نصاب میں ہونے والی اس خطرناک تبدیلی کا نوٹس لے اور حقائق عوام کے سامنے پیش کرے۔

No comments:

Post a Comment