مناظر

Tuesday, 19 May 2015

جلتے پھول اور بے خبر مالی

گذشتہ روز لاہور کے علاقے شاد باغ میں گھر میں لگی آگ کے باعث چھے معصوم بچے کوئلے کا ڈھیر بن گئے، جاں بحق ہونے والے میں مناہل، زین، انہا ، دْعا جبکہ جڑواں بچے اذان اور ازہان شامل ہیں۔ مرحوم بچوں کی عمریں ڈیڑھ برس سے چودہ برس کے درمیان تھیں۔اہل علاقہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ریسکیو کے عملے نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا اور وہ بروقت جائے حادثہ پر نہیں پہنچا جس کی وجہ سے جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔ لاہور کے ضلعی رابطہ افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اعلی سطحی اِختیاراتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ فرائض میں غفلت برتنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔بچے تو معصوم ہوتے ہیں ایک مقولہ ہے ناں کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ لیکن ان معصوم کلیوں کے بھسم ہوجانے سے ہمارے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئی ہوتے بھی کیوں یہ بچے کسی اعلیٰ شخصیت کے تو نہیں تھے، میڈیا پر خبر نشر ہوئی ، ہیڈلائن بھی بنی ، خوبصورت آواز میں اداسی بھرے بیک گراؤنڈکے ساتھ ٹی وی اسکرین پر سارا دن خبر چلتی رہی، بین کرتی مائیں ، چیختی بہنوں کی صدائیں سارا دن نیوز چینلز دکھاتے رہے ، گھر وں میں چینلز دیکھتی مائیں بھی ان معصوم پھولوں کے جلنے پر افسردہ ہوئیں ، مگر یہ بھی کچھ دیر بعد ختم ہوگیا، معصوم بچوں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا گویا سب جذبات، دکھ اور بہتے آنسو سب ختم ہوگیا۔معصوم بچے جن کی عمریں ڈیڑھ سے چودہ برس تھیں دفن تو ہوگئے مگر ان کی تدفین کے بعد کئی سوال ادھورے چھوڑ گئی ہے۔ کیا ہم ریسکیو کے معاملے میں اس قدر کمزور ہیں کہ ہم شہر لاہور میں بھی آگ پر قابو نہیں پا سکے ؟ ہماری ریسکیو سروس اتنی سست رو ہے کہ آگ لگنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہماری سروس پہنچے جو کہ جائے حادثہ سے صرف دس منٹ کی مسافت پر ہے۔

یہاں اپنے قارئین کو یہ بھی بتا دوں کہ پنجاب اسمبلی کی مسافت بھی جائے حادثہ سے دس منٹ ہے، جبکہ اہم سرکاری عمارات، پاک فوج کے رہائشی کواٹررز، پاکستان ریلویز کے دفاتر اور ریلوے اسٹیشن بھی جائے حادثہ کے قرب و جوار میں موجود ہیں ۔ ان حساس اور اہم سرکاری عمارات کے قریب ہونے کے باوجود فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کا بروقت نہ پہنچنا لمحہ فکریہ ہے اور ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے شاد باغ میں آتشزدگی کے باعث جھلس کر جاں بحق ہونے والے بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری رپورٹ طلب کرلی جس کے بعد حکام نے فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 کے دفاتر کا ریکارڈ سیل کردیا۔ لیکن کیا انکوائری کمیشن بٹھا دیں دفاتر سیل کر دینا ہی مسئلے کا حل ہے؟ میری نظر میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ جہاں آگ لگنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں وہیں ریاستی اداروں اور حکومتی سطح پر فوری انتظامات ناگزیر ہوتے ہیں ۔ لیکن ملک میں موجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفراسٹرکچر، فائر مینوں کا تربیت یافتہ نہ ہونا ، غفلت اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں ڈیزل اور پانی کا موجود نہ ہونا جائے وقوعہ پر پہنچنے میں ایک رکاوٹ ہے ۔شاد باغ واقعہ میں بھی یہ عوامل درپیش رہے ہیں مال روڈ اور اس کی اطراف کی سڑکوں پر پولیس کی جانب سے زمبابوے ٹیم کی سیکورٹی کے لئے فل ڈریس ریہرسل کی جارہی تھی جس کی وجہ سے آس پاس کی سڑکوں پر ٹریفک جام رہی۔ جبکہ کینال روڈ پر بھی شاد باغ کے قریب تنگ سڑک ہونے کی وجہ سے کافی ہجوم رہتا ہے۔ خیر یہ تو ایک مفروضہ ہے مگر اس بارے میں سرکاری اداروں کو جامعہ تحقیقات کروا کر رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کو سزا دینے چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی غفلت برتنے سے پرہیز کرے۔اس بات سے قطعاََ انکار نہیں کہ فائر میں خدمت اور کام سے لگن کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے جانیں بھی قربان کر دیتے ہیں مگر اس میں غلطی تو حکام بالا کی ہے جن کی غفلت کی وجہ سے فائر مین بھی اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتے۔ مناسب تربیت ، حفاظت کے انتظامات اور گاڑیوں کی مرمت ، پٹرول اور پانی کا گاڑی میں موجود ہونا انتہائی ضروری ہے ان انتظامات کے بغیر فائر مین بھی اپنی کاکردگی بہ احسن انجام نہیں دے پاتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر حادثات کی طرح یہ حادثہ بھی فائلوں کی زینت بنانے کی بجائے اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور فائر بریگیذ سمیت دیگر ریسکیو سروسز لی بہتری کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ آگ کی وجہ سے ہلاکتوں کاسلسلہ صرف پنجاب ہی تک محدودنہیں۔ خیبر پختوانخواہ ، بلوچستان ، سندھ یعنی سارا پاکستان اس سے متاثر ہے مگر انتظامات سارے ملک کے ہی ایک جیسے ہیں ، کراچی ٹمبر مارکیٹ میں آتش زدگی کے واقعے نے ملک کے اہم تجارتی مرکز میں بھی فائر سیفٹی کے انتظامات کے قلعی کھول دی تھی۔ صوبہ خیبر میں تبدیلی کے دعوایداروں کے کھوکھلے نعرے بھی گذشتہ ماہ پشاور میں ہونے والے طوفان باد و باراں نے ہوا میں تحلیل کر دئیے تھے۔ اب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ پھر کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔ پھر کسی بہن کا کلیجہ چھلنی نہ ہو، پھر کسی چینل پر دکھ پھر ٹون کے ساتھ ہیڈلائنز نہ بنیں۔ محفوظ ہوگا پاکستان تو محفوظ رہیں گی حکومتیں،اور اگر یہ پھول ایسے ہی جلتے رہے تو مالی کو بھی کہیں جگہ نہیں ملے گی، مالی کی بے خبری ایک المیہ ہے مگر لمحہ فکریہ بھی ۔ 

No comments:

Post a Comment