مناظر

Saturday, 16 May 2015

مجھے میرا گھر چاہئے

اکتو بر 2005ء میں کشمیر میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے دوران اپنے گھر سے محروم ہوا، اللہ نے گھر والوں کو اس ہولناک تباہی کے دوران اپنی حفظ و امان میں رکھا مجھے آج بھی وہ دن اور ہفتے درد اور تکلیف کا احساس دلاتے ہیں جس اذیت میں میرے خاندان نے کاٹے تھے۔ وہ تو قدرت کی طرف سے ایک آزمائش 
تھی۔ چند ہفتوں کے بعد نئے عزم سے گھر بنا کر پھر سے اپنے گھر میں آباد ہوگئے۔

لیکن اس زمین میں کچھ ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو 67برس بیت گئے اپنے گھروں کو لوٹ نہ سکے۔جنہوں نے ماؤں کی گود میں ہوتے ہوئے اپنے گھر بار چھوڑا تھا اب 
بالوں میں چاندی آچکی ہے اور کمر جھک چکی ہے۔ شاید انہیں تب احساس بھی نہ تھا کہ ان پر کیا قیامت برپا ہو رہی ہے۔سڑسٹھ سال قبل چودہ مئی انیس سو اڑتالیس سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر کے ایک ناجائز صیہونی ریاست قائم کی گئی اور فلسطینیوں کے سینکڑوں قصبے اور دیہات صیہونی فوجیوں کی جارحیت کے نتیجے میں ویران کھنڈروں میں تبدیل کر دیے گئے اور اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہی و بربادی کے کھنڈرات پراپنی آزادی اور آبادکاری کا پہلا جشن منایا۔دراصل برطانیہ کی سرکردگی میں کچھ یورپی ملکوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو دو عرب اور یہودی ملکوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی اور چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو بن گورین کی وزارت عظمی میں ایک صیہونی حکومت اسرائیل کے نام سے وجود میں آئی۔ اس کے جواب میں عرب ملکوں نے پندرہ مئی کو فلسطینیوں کی دربدری کے سیاہ دن کو یوم النکبہ قرار دیا۔اس بین الاقوامی سازش کے ردعمل میں متحدہ عرب ممالک کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا لیکن اس کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا سوائے اس کے کہ فلسطین کی ستتر فیصد سرزمین اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں چلی گئی جہاں انہوں نے پوری دنیا سے یہودیوں کو لا کر بسانا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے یہودیوں اکثریت ثابت کرنے کے لیے فلسطینیوں کو بے گھر کر کے پناہ گزین کیمپوں اور دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں صحرائے سینا، غزہ پٹی، دریائے اردن کے مغربی کنارے کا علاقہ، جولان کی پہاڑیاں اور پورا بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ بے گھر ہو جانے والے یہ فلسطینی یا پھر اْن کی آئندہ نسلیں آج بھی مغربی اردن اور غزہ پٹی کے ساتھ ساتھ ہمسایہ عرب ملکوں شام، لبنان اور اردن میں آباد ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ان فلسطینیوں کی تعداد کئی ملین تک پہنچ چکی ہے۔ ہر سال پندرہ مئی کو یوم نکبہ مناتے ہوئے ان بکھرے ہوئے فلسطینیوں اور اْن کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے اْس سوال کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے، جو عرب اسرائیلی تنازعے میں مرکزی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل سڑسٹھ سال پہلے بے گھر ہو جانے والے فلسطینی مہاجرین کی ایک چھوٹی سی تعداد کو تو اپنے ہاں پھر سے قبول کرنے پر تیار ہے تاہم اْس کا موقف یہ ہے کہ باقی تمام فلسطینیوں کو یا تو امن 

مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی آزاد فلسطینی ریاست میں آباد کیا جانا چاہیے اور یا پھر اْنہیں اْن ممالک ہی میں رہنا چاہیے، جہاں وہ آج کل رہ رہے ہیں۔انسانی تاریخ کا سب سے طویل حل طلب مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ کی فائلوں میں کہیں دب کر رہ گیا مگر گذشتہ سال اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان ایک پیش رفت اور اہم کامیابی ہے لیکن اس کامیابی پر شادیانے بجانے کی بجائے سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جنگیں اقوام کی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہیں فلسطینی قیادت اور مسلم ممالک کے سربراہان اس مسئلے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ غزہ کی پٹی پر آئے روز اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے حملے ہوں یا دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کی آڑ میں نہتے شہریوں ، عورتوں اور بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ پانچ بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن میں عرب اسرائیل جنگ:1948،نہر سویز کی جنگ:1956، چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ:1967،یوم کپور:1973، جنگ لبنان:1982ان جنگوں میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے کئی علاقے بھی اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔جنگیں مسائل کا حل نہیں موجودہ دور میں بھرپور سیاسی، سفارتی اور اقتصادی ہتھیاروں کے ذریعے فیصلے کئے جا رہے ہیں مسلم ممالک باہم انتشار اور اپنے ذاتی بادشاہتوں کے تحفظ میں مگن ہیں انہیں کسی بھی دوسرے برادر ملک کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ، قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود محکوموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس وقت فلسطنیوں کی ذاتی کوششوں سے ویٹی کن نے بدھ کو حتمی شکل پانے والے ایک معاہدہ میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا جبکہ ویٹی کن نے2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے فیصلے کو سراہا تھا۔ یوم نکبہ ہمارے لئے پیغام ہے کہ جسد واحد کی مانند ہونے کے دعوے نہیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے، اقوام متحدہ کے ادارے ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اقوام عالم کو اسرائیلی مظالم سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں ان مظالم کی روک تھام کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ کرنا ہوگا۔ وہ جو بچپن سے اپنے گھر لوٹنے کا خواب دیکھتے ہوئے بڑھاپے کی دہلیز پار کر چکے ہیں انہیں ان کے گھروں تک پہنچانا ہوگا۔ کیوں کہ سکون تو تب نصیب ہوگا جب اہل فلسطین اپنے گھروں کو لوٹیں گے ان کے گھروں میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجیں گے۔

No comments:

Post a Comment