گذشتہ دنو ں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید صاحب نے آرٹسکونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں “۔اس کے علاوہ مدارس کے تعلیمی نظام پر کھل کر تنقید کی ۔ یہ تنقید ایک ادبی محفل میں کی اور براہ راست اسلامک لٹریچر کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ ایک سنجیدہ منجھے ہوئے سیاستدان اور اعلیٰ عہدے پر براجمان شخصیت سے ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی توقع نہیں تھی ہر ادارے میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اور اداروں میں ہر طرح کے خیالات اورنظریات کے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی ایک فرد کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی بنیاد پر تمام مدراس کو جاہل قراردینا سراسر ناانصافی ہے۔ پرویز رشید کو چاہیے کہ وہ دینی مدارس کے خلاف کیے جانے والے بے بنیاد پراپیگنڈہ مہم کا حصہ نہ بنتے۔ان حالات میں جب کہ ملک یک جہتی اور قومی وحدت کی ضرورت ہے اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات فرقہ واریت اور نفرت کی آگ کو ہوا دینے کے مترداف ہوگا۔ ابھی وزیر اطلاعات کے بیان کے بعد لگنے والی آگ ٹھنڈا نہیں ہوپائی تھی کہ جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم کی جانب سے نفرت انگیز فتویٰ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ، انہوں نے وزیراطلاعات پر الزامات کی پوچھاڑ کردی انہوں نے تو برملا وزیر اطلاعات کو غیر مسلم قرار دے دیا ۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے وزیر اطلاعات کے بیان کے ردعمل پر شدید احتجاج کیا گیا سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔مذہبی روادری اور عدم برداشت کے کلچر نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ملک میں ہونے والی اس بحث کا نتیجہ کسی بھی صورت مثبت نہیں آئے گا۔ ملک میں لبرل فکر اور اسلامک سوچ کے حامل افراد بظاہر ایک دوسرے کے خلاف صف آراءنظر آرہے ہیں، وزیر اطلاعات کا ایک مکتبہ فکر کی تقریب میں جاکر دوسرے مکتبہ فکر پر برملا تنقید کرنا اور طنزو تضحیک کرنا انہیں قطعا زیب نہیں دیتا کیوں کہ وہ پورے ملک کی ایک ذمہ دار وزارت پر براجمان ہیں۔ ان کا مﺅقف اور گفتگو ذاتی نہیں بلکہ حکومت کی پالیسی کی آئینہ دار سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے انہیں ہر قدم احتیاط سے اُٹھانا چاہیئے تھا۔ مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باوجود تادم تحریر حکومت کا مﺅقف سامنے نہ آنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ حکومت کو کسی بھی گروہ یا تعلیمی نظام پر تنقید کرنے سے پہلے ا س میں اصلاحات لانے کی تگ و دو کرنی چاہئے، کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا دار و مدار تعلیم پر ہے اور ملک کا سستا ترین دفاع تعلیم کو سمجھا جاتا ہے۔نائن الیون اور اس کے بعد کے حالات کی وجہ سے دینی طبقے میں پہلے ہی مدارس، مساجد کے بارے میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تحفظات ہیں۔ بات بھی بجا ہے اس وقت ملک میں چار قسم کے بنیادی تعلیمی نظام رائج ہیں جن میں سرکاری تعلیمی ادارے، نجی تعلیمی ادارے (انگلش میڈیم) ،A/Oلیول اور مدارس ۔ تمام مدارس ایک وفاق کے تحت رجسٹر ہیں جسے وفاق المدارس کا نام دیا گیا ہے۔ آج پاکستان میں 25 لاکھ کے قریب دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبہ مفت تعلیم، طعام، رہائش، کی سہولتوں سے فیض یاب ہیں۔ دینی مدارس دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے جس کا حکومت پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔ حکومت ان میں شوق سے اصلاحات کرے مدارس میں زیادہ تر طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے ۔جو بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہے۔ غریبوں میں تعلیم کو عام کرنے میں سب سے بڑا کردار مدارس ہی کا ہے ، اگر سروے کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آج اسکولوں کی بہ نسبت مدارس میں غریب طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔گذشتہ برسوں میں ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے ۔ اس ساری تباہی کا ذمہ دار مدارس کو ٹھہرایا گیا حالانکہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں سرکار ی اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی ملوث رہے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صولت مرزا کس دارالعلوم سے فارغ ہے اورگلو بٹ یا فیصل موٹا کس دینی مدرسے کا سند یافتہ ہے؟۔ کیا ملک میں پکڑے جانے والے مختلف دہشت گردوں کا تعلق بڑی بڑی یونیورسٹوں سے نہیں ہے۔ کیا اس بنیاد پر ہم انہیں بھی جاہل قراردے دیںگے۔ اس دہشت گردی ، انتہا پسندی اور نفرتوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس ، نوکریاں نہ ملنا ، معیاری اور پیشہ وارانہ تعلیم کا فقدان یہ تمام ایسے مسائل ہیں جو ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک24تعلیمی پالیسیاں نافذ کی گئیں۔اس وقت شرح خواندگی کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں136ویں نمبر پر کھڑا ہے۔پاکستان اس وقت کل قومی پیداوار کا محض دو فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ جس کا ایک بڑا حصہ تدریسی عملے کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ بجٹ میں پانچ سے سات فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جائے، یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے،ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دی جائے،عوام میں تعلیم کا شعور بیدار کیا جائے۔یکساں نظام تعلیم کی بدولت رنگ برنگی قوم پیدا ہونے کی بجائے ایک ملت بنے گی۔پاکستان میں ہر سال تقریباََ 26ٹن کتابیں ردی کے طرح فروخت کی جاتی ہیں اس کی وجہ ہر سال تعلیمی نصاب کا تبدیل ہونا۔، یونیفارم تعلیمی سہولیات کا نہ ہونا، جیسے مسائل ہیں۔جب تعلیم مہنگی کی جائے گی، غریب آدمی پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے تو انہوں نے علم حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے لئے غریب آدمی کے لئے مدرسے کے علاوہ کوئی بھی آپشن باقی نہیں رہتا ۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ مدارس کے نظام کو بہتر بنائے اور رجسٹر مدارس کو طلبہ کو جدید علوم کی تعلیمی دینے کا پابند بنائے۔ وزیر اطلاعات سے بھی اپیل ہے کہ اپنے بیان پر مدارس سے معافی مانگیں تاکہ ملک جس جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے اس ڈگر سے واپس لایا جائے کیوں کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا بڑے پن کی مثال ہے اور یقینا آپ عالی مرتبت ہیں اور قوم کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے امید ، حوصلہ اور یکجہتی کا جذبہ دیں گے #
مناظر
Wednesday, 13 May 2015
عالم اور جاہل
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment