علی ہاشمی نوجوان جذبوں کا شاعر ہے ، جس کی زبان میں مٹھاس کی بجائے تڑپ پائی جاتی ہے، نہ ختم ہونے والے کرب سے اس کی شاعری گذر رہی ہے۔ ہر شعر ایک نامعلوم محبوب کی پرچھائیاں اُڑھے اسی کے گرد گھوم رہا ہے، بلندیوں پر موجود ہونے کے باوجود اس کے محبوب کی شاعری اسے پستیوں کی جانب لے کر جارہی ہے، اور محبوب کی خاطر پستیوں میں جانے کو وہ اپنے لئے اعزاز اور فخر سمجھتا ہے
؎"اس سے آگے نشیب ہے میرا
تم میرے آخری پڑاؤ تھے
"
مگر اس کی شاعری میں کہیں کہیں امید کا استعارہ نظر آتا ہے
، روشنی کی کرنیں جھلکتی ہیں۔ پیار کا دیا جلتا ہے۔ امید کا سورج اس کے سامنے چمک
رہا ہے، مگر اسے اپنی شاعری کے ذریعے گرہن لگنے سے ، زمانے کی دھول سے بچانا ہوگا۔
؎"بے سبب اس طرح اشکوں کا بہانا میرا
یہ نہ ہو ضبط کی دیوار میں پھر در کردے"
ہاشمی کا پہلا مجموعہ کلام " محبت ہار جاتی ہے"
پڑھنے کا موقع ملا، ہر لفظ میں محبوب کی فطری بے وفائی ، درد ، رنجش اور تکلیف کا
تذکرہ ملا، کہیں کہیں نوجوانوں کی ناامیدی کو بھی علی نے اپنی شاعری میں بیان کیا
ہے۔نوجوانوں میں ان کے کلام کی مقبولیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ ایک
نوآموز شاعرکی پہلی ہی کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، جو کہ فی
الحقیقت ایک اچھے راستے کی جانب جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔علی نوجوانوں کو صبر و
برادشت تحمل اور اپنی جوانی کو قابو میں کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔
؎"خواب ہویا آنسو ہو، چاند ہو کہ سورج ہو
آنکھ میں سمانے میں دیر کتنی لگتی ہے
علی کا تعلق ہیر اور رانجھے کے ضلع سے ہے ، جہاں محبتیں
بکھیری جاتی ہیں ، جہاں پیار کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، جہاں
اہل علم کی قدر کی
جاتی ہے، جہاں سے وارث شاہ نے شہرت پائی، یقین جانئے اس کی شاعری میں جا بجا وہ
اہل جھنگ کا پیار و محبت سے بھرپور رنگ نظر آتا ہے۔
میری ناکام سوچیں
مجھ سے کہتی ہیں
محبت ہار جاتی ہے، محبت ہار جاتی ہے
خیالوں کی تلاطم خیز لہریں
کہتی رہتی ہیں
محبت ہار جاتی ہے،
بدن سے روح کا ٹانکا
اُدھڑتا ہے
کوئی آواز دیتا ہے
محبت ہار جاتی ہے
مجھے دفنا کر جب آئے، بہت روئے جہاں والے
لگایا قبر پر کتبہ
محبت ہار جاتی ہے
No comments:
Post a Comment