میری نوائے شوق سے شور
حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں!
٭ ٭ ٭ ٭
اگر کج رو ہیں انجم ،
آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا ، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا؟
محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
٭ ٭ ٭ ٭
ترے شیشے میں مے باقی
نہیں ہے
بتا ، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
٭ ٭ ٭ ٭
گیسوئے تاب دار کو اور
بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر
٭ ٭ ٭ ٭
اثر کرے نہ کرے ، سن تو
لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟
قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
٭ ٭ ٭ ٭
کیا عشق ایک زندگی
مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے ، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب ، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو!
٭ ٭ ٭ ٭
دلوں کو مرکز مہر و وفا
کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
٭ ٭ ٭ ٭
پریشاں ہوکے میری خاک
آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میں حوریں
مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے ، جو سینے میں ، غم منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے نا پیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانہ دنبالۂ محمل نہ بن جائے
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
٭ ٭ ٭ ٭
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں
کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری ، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی
٭ ٭ ٭ ٭
لا پھر اک بار وہی بادہ
و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!
٭ ٭ ٭ ٭
مٹا دیا مرے ساقی نے
عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ہو
نہ مے ،نہ شعر ، نہ ساقی ، نہ شور چنگ و رباب
سکوت کوہ و لب جوۓ
و لالہ خود رو!
گدائے مے کدہ کی شان بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو!
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
میں نو نیاز ہوں ، مجھ سے حجاب ہی اولی
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا
صفائے پاکی طینت سے ہے گہر کا وضو
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو
٭ ٭ ٭ ٭
متاع بے بہا ہے درد و
سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا ، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی ، وہاں جینے کی پابندی
حجاب اکسیر ہے آوارہ کوئے محبت کو
میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
٭ ٭ ٭ ٭
تجھے یاد کیا نہیں ہے
مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہ محبت ، وہ نگہ کا تازیانہ
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراش آزرانہ
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس نہ آشیانہ
رگ تاک منتظر ہے تری بارش کرم کی
کہ عجم کے مے کدوں میں نہ رہی مے مغانہ
مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے
انھیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے ، تب و تاب جاودانہ
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایت زمانہ
٭ ٭ ٭ ٭
ضمیر لالہ مے لعل سے
ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اس نے فقیروں کو وارث پرویز
پرانے ہیں یہ ستارے ، فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز
کسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز
نہ چھین لذت آہ سحر گہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز
دل غمیں کے موافق نہیں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگیز
حدیث بے خبراں ہے ، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز
٭ ٭ ٭ ٭
وہی میری کم نصیبی ،
وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
میں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوزو ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی
نہ زباں کوئی غزل کی ، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکشا صدا ہو ، عجمی ہو یا کہ تازی
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی
کوئی کارواں سے ٹوٹا ، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
٭ ٭ ٭ ٭
اپنی جولاں گاہ زیر
آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں راز محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداۓ درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
٭ ٭ ٭ ٭
اک دانش نورانی ، اک
دانش برہانی
ہے دانش برہانی ، حیرت کی فراوانی
اس پیکر خاکی میں اک شے ہے ، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی!
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
تیرے بھی صنم خانے ، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی ، دونوں کے صنم فانی
٭ ٭ ٭ ٭
یا رب! یہ جہان گزراں
خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنرمند
گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
تو برگ گیا ہے ندہی اہل خرد را
او کشت گل و لالہ بنجشد بہ خرے چند
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مے گلگوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
فردوس جو تیرا ہے ، کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مدت سے ہے آوارہ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی ، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے
ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں ، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظرباز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند!
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند!
No comments:
Post a Comment