مناظر

Tuesday, 11 October 2016

ایٹم بم میں پہلا کام کرنے والا لوھار

یہ وہ لوھار ھے. جو 1974 میں ایٹم کیلئے ایندھن بنانے کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت کئ سائینسدانوں نے اس سے مدد 
مانگی تھی۔

1972 میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام منیر احمد خان کی سربراہی میں شروع ہوا اور پہلا کام پاکستانی سائندانوں نے ایٹمی ایندھن کی تیاری کیلئے کارآمد تابکار مواد بنانے والی مشین Gas centrifuge پر تحقیق کا شروع کیا

یہ مشین مدھانی کے اصول پہ کام کرتی ہے اور جیسے مدھانی دودھ میں سے مکھن نکالتی ہے. Gas Centrifuge تابکار مواد کو انتہاہی تیزی سے گول سلنڈر کے اندر گھما کر, کار آمد اور غیر کارآمد ایٹموں کو الگ کرتی ہے. مشین جتنا تیز گھومے گی اتنا اچھا کام کرے گی.

Image result 

اچھی بات یہ ہوئی کہ ایک پاکستانی سائنسدان جی . اے . عالم نے اپنے طور پہ 1975 میں Gas Centrifuge بنا کہ تیس ہزار چکر فی منٹ پہ گھمائ. موصوف نے پہلے کبھی یہ مشین نہ دیکھی تھی , صرف اپنی کتابی معومات پہ اتنی پیچیدہ مشین بنا کہ کامیابی سے چلائی . اس معرکہ سے سال پہلے 1974 میں خلیل قریشی نامی پاکستانی ریاضی دان نے Gas Centrifuge کے مکمل ریاضی کلیہ کا حساب لگا کر پاکستان اٹمک انرجی کمیشن کو دیا تھا 1975 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے 
ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی

اسی سال انھوں نے جی. اے . عالم سے ملاقات کی اور ان کی بنائ ہوئ Gas Centrifuge دیکھی
پاکستان آنے سے پہلے ڈاکٹر عبداقدیر نے ہالینڈ کی کمپنی URENCO میں کام کیا تھا. URENCO کمپنی آج بھی موجود ہے اور دنیا بھر کے ایٹمی بجلی گھروں کو اپنے Gas Centrifuge میں ایٹمی ایندھن بنا کر فراہم کرتی ہے . ڈاکٹر عبدالقدیر نے اُن کی Gas Centrifuge پہ مزید تحقیق کر کہ کارکردگی مزید بہتر کی تھی اور یہی تجربہ لے کر پاکستان آئے
جی- اے - عالم کا ڈیزائن کام تو کرتا تھا مگر فی منٹ 30 ہزار چکر کم تھے اور اس رفتار سے ایٹمی ایندھن بنانے میں بہت طویل عرصہ لگنا تھا .
ساتھ ہی ریاضی دان خلیل قریشی کی کیلکولیشن راہنمائ کے لیئے موجود تھیں اور اسے دیکھتے ہوئے حساب لگایا گیا کہ Gas Centrifuge کو کم از کم 6o ہزار RPM پہ گھمانا ہوگا
تجربات کیئے گئے اور جب بھی Gas Centrifuge مشین کے اندرونی پنکھوں کو زیادہ تیز گھمایا جاتا, مشین ٹوٹ پھوٹ جاتی. جیسے کچی روٹی کو تیز گھمایا جائے تو پہلے اس کی گولائ بڑھتی ہے اور پھر ٹوٹ پھوٹ کہ بکھر جاتی ہے. 60 ہزار چکر فی منٹ پہ پاکستانی Gas Centrifuge کے اندرونی پنکھوں کا یہی حال ہوتا
پاکستان کے تمام بڑے سائنسدان سر جوڑ کہ بیٹھے اور مسئلہ کا حل تلاش کیا. کئی طرح کے حساب لگائے گئے اور سب اس بات پہ متفق ہوئے کہ المونیم دھات کا جو مرکب Alloy پنکھے بنانے میں استعمال ہورہا ہے وہ کمزور ہے اور نیا مرکب.Alloy بنانا ہوگا
کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد ایک نیا المونیم مرکب بنایا گیا جو حساب کے مطابق پنکھے کی شکل میں ڈھال کر ایک منٹ میں 60 ہزار بار گول گھمایا جائے تو نھیں ٹوٹے گا
نئی Gas Centrifuge بنائ گئ جس کےاندر کے پنکھے اس نئے المونیم مرکب سے بنائے گئے اور جب تجرباتی طور پہ مشین چلائ گئی تو کچھ دنوں تک تو کچھ نہ ہوا, مگر کچھ دن مسلسل چلنے کے بعد یہ مشین بھی پہلے والے ڈیزائن کی طرح زور برداشت نہ کر پائ اور ٹوٹ پھوٹ گئی
سب سائنسدان حیران رہ گئے, حساب کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہ تھا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو خود دھاتوں کے ماہر Metallurgist تھے وہ بھی حیران رہ گئے کہ اتنی مظبوط دھات کیسے ٹوٹ گئ اور سائنسدانوں کا ہنگامی اجلاس بلایا. مسئلہ وقت کا تھا. بھارت 1974 میں ایٹمی سھماکے کر چکا تھا اور اس کے سال بعد کوشش کے باوجود ہماری ایٹمی ایندھن بنانے والی Gas Centrifuge کو مسائل درپیش تھے. مسئلہ جلد حل کرنے والا تھا. اجلاس میں پاکستانی ریاضی دان, دھاتوں کے ماہر اور ایٹمی سائنسدان سب شریک تھے اور سب نے مشین کے نقشے, کیلکولیشن ,دھاتی مرکب, ہر چیز کا جائزہ لیا مگر مسئلہ کا حل سمجھ نہ آیا. اجلاس میں موجود چند افراد نے ایک عجیب بات کہ ڈالی. پہلے مثال دی کہ جس طرح لا علاج مریض کو جب ڈاکٹر کے پاس سے دوائ نھیں ملتی تو وہ, حکیم,نجومی,عامل, کسی کے پاس بھی جانے سے گریز نھیں کرتا, اس امید پہ کہ شاید کہیں سے حل نکل آئے. چونکہ اس وقت ہمارے پاس بھی اس مسئلہ کا حل موجود نھیں. نکال تو لیں گے مگر وقت لگے گا اور وقت ہمارے پاس ہے نھیں, کوئ پتہ نھیں کب بھارت ایٹم بم بنا کر ہمارے پہ برسا رہا ہو
نیا اور غیر معمولی قدم اٹھاتے ہیں. ہمیں گجرانوالہ کے ایک لوہار کا پتہ ہے جو جدی پشتی لوہار ہے اور دھات کے ہر کام میں ماہر ہے, ڈھلائ, خراد یا دھات کا کوئ بھی کام ہو اس لوہار سے ماہر بندہ ہم نے نھیں دیکھا. چلتے ہیں اس کے پاس, شاید وہ کوئ حل بتا دے ؟
کچھ تزبزب کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ رازداری رکھتے ہوئے ڈاکٹر قدیر اور چند اور سائنسدان خود لوہار کے پاس جائیں گے .
اگلے دن ڈاکٹر عبدالقدیر چند اور ساتھیوں کو لے کر گجرانوالہ پہنچے. پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی گاڑی ایک پرانی سی ورکشاپ کے سامنے رکی. اندر ایک پچاس پچپن سال کا لوہار اپنی بھٹی کے سامنے بیٹھا گرم دھات کے ٹکڑے پہ ہتھوڑے چلا رہا تھا
ڈاکٹر عبدالقدیر ساتھیوں کے ہمراہ اندر گئے اور لوہار کا کام ختم ہونے کا انتظار کیا. جب لوہار فارغ ہوا تو پہلا سوال کیا " صاحب کیا درانتیاں بنوانے آئے ہو؟" فصلوں کی کٹائ ہونے والی ہے آج کل ہم درانتیاں خوب بیچ رہے ہیں. ڈاکٹر قدیر نے اپنا تعارف کرایا جو اسے کچھ سمجھ نہ آیا, نہ تو اسے اٹامک انرجی کمیشن کا پتہ تھا کہ کیا چیز ہےاور نہ ہی ایٹمی پروگرام کا. کہنے لگا , صاحب مسئلہ بتاؤ, بس اتنی مجھے سمجھ آئ کہ آپ کوئ مشین بنانا چاہتے ہیں
ڈاکٹر قدیر نے آسان الفاظ میں اسے سمجھایا کہ ہم ایک پنکھا بنانا چاہتے ہیں, جو ہلکا ہو اور تیز گھومے, لوہار نے پوچھا, "جیسا کچھ گاڑیوں کے انجن میں لگا ہوتا ہے"؟ وہ میں نے ایک گاہک کے لیئے بنائے تھے, ڈھلائ بھی خود کی تھی اور دھات بھی خود تیار کی تھی اور انجن میں لگائے بھی تھے, میرا پنکھا آج بھی چلتا ہے. ڈاکٹر قدیر سمجھ گئے کہ Turbo Charger کی بات کر رہا ہے, جس میں پنکھا لگتا ہے جو منٹ میں ایک لاکھ بار گھومتا ہے مگر چند منٹوں کیلیئے. Gas Centrifuge کے پنکھے اسی رفتار پہ کئی مہینے مسلسل گھومتے ہیں
بہر حال ڈاکٹر قدیر کو سمجھ آگئی کہ بندہ کام کا ہے اور ملتا جلتا تجربہ بھی رکھتا ہے
لوہار نے مزید تفصیل پوچھی جو اسے بتائ گئی. لوہار تھوڑا,سوچ کہ بولا کہ مجھے اپنی بھٹی پہ لے جاؤ جہاں آپ پنکھا بناتے ہو, مسئلہ میں وہاں سمجھوں گا اور امید ہے حل بھی بتا دوں گا. لوہار کو اسی دن اٹامک انرجی کمیشن کی ورکشاپ لایا گیا جدھر Foundry تھی اور دھات پگھلا کر سانچوں میں ڈھالنے کا کام ہوتا تھا
لوہار نے کہا اسے پہلے بنائے گئے پنکھے دکھائے جائیں. ایک نمونہ اسے دیا گیا. لوہار نے نمونے کو غور سے دیکھا پھر ہتھوڑی سے ہلکا سا ٹھوکا اور آواز سنی, پھر کئی بار ایسا کیا. اور ہلکا سا مسکرایا. بولا, صاحب مسئلہ مجھے سمجھ آگیا, اب آپ میرے سامنے ایک پنکھے کی اسی طرح سانچے میں ڈھلائ کریں جیسے آپ کرتے ہیں. شام کا وقت ہو چکا تھا اور عملہ کو اپنے اپنے گھروں کو جانا تھا مگر اس دلچسپ صورتحال کو دیکھنے عملہ رک گیا اور ورکشاپ میں ایک چھوٹا سا ہجوم لگ گیا, جس میں نئے انجینیئر بھی شامل تھے اور پرانے بھیدھاتی مرکب کو بھٹی میں ڈال کر پگھلایا گیا اور لوہار کے سامنے سانچے میں ڈالا گیا. لوہار کھڑا دیکھتا رہا, پھر بولا, صاحب مسئلہ یہ ہے کہ آپ سانچے میں دھات بہت آہستہ ڈال رہے ہو, ہو یہ رہا ہے کہ سانچے میں پہلے جانے والی پگھلی دھات ٹھنڈی ہو جا رہی ہے اور پیچھے آنے والی نسبتاً گرم دھات اس کے ساتھ جُڑ نھیں پا رہی. اور آپ کا پنکھا اسی لیئے کمزور بن رہا ہے, اس کی مثال ایسی ہے کہ مٹی کا برتن بناتے وقت کمہار گیلی مٹی اور خشک مٹی کو ملا کر برتن بنائے. مٹی آپس میں ٹھیک نہ جڑ پائے گی اور برتن کمزور بنے گا. پھر لوہار نے کہا, آپ سانچہ میں ڈھلائ تیز کرو, مسئلہ حل ہو جائے گا, پنکھے کی "ٹن کی آواز" سن کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا اندرونی ڈھانچہ (crystal structure ) درست نھیں. پگھلی دھات سانچہ میں تیزی سے ڈالو, تمام دھات ایک درجہ حرارت پہ ہوگی اور ساتھ ٹھنڈی ہو کہ آپس میں مضبوط جڑے گیڈاکٹر عبدالقدیر اور وہاں موجود تمام انجنئر لوہار کا طریقہ کار اور مہارت دیکھ کر حیران رہ گئے
اس رات لوہار کو مناسب معاوضہ دے کر واپس اس کے گھر چھوڑ دیا گیا
اگلے دن Flow Rate کا دوبارہ سے حساب لگایا گیا اور جیسا لوہار نے کہا تھا, اس کیکولیشن میں غلطیاں پائ گئیں
دھات کی ڈھلائی کی رفتار کا نئے سرے سے تعین کیا گیا اور پھر تیز ڈھلائ سے بنے پنکھے جب چلائے گئے تو پہلے 60 ہزار چکر فی منٹ پہ کئی دن گھمائے گئے, پھر مشین سے نکال کہ لیبارٹری میں جانچے گئے اور پنکھے بہترین شکل میں تھے اور کسی قسم کے نقصان یا ٹوٹ پھوٹ کے شواہد نہ ملے
ڈاکٹر عبدالقدیر نے پنکھے کی مضبوطی دیکھتے ہوئے مشین کی رفتار اور تیز کرنے کا فیصلہ کیا اور پنکھے 80 ہزار چکر فی منٹ پہ گھمائے گئے. پھر لیبارٹری میں تجزیہ ہوا اور 80 ہزار RPM پہ بھی پنکھے بغیر نقصان کے چلتے رہے. اور یوں پاکستان کی پہلی Gas Centrifuge کا حتمی نقشہ بنا کر بڑے پیمانے پہ پیداوار شروع ہوئی. اس مشین کا سرکاری نام Pakistan -1 یا P-1 تھا مگر اٹامک انرجی کمیشن کے چند نوجوان انجنئروں نے لوہار کی یاد میں اس مشین کو " بابے کی مشین " کہا
ایک ہنر مند کے تجربہ نے مشین کی تیاری میں کئی مہینے کا وقت بچا دیا
سن 1978 میں پاکستان کا ایٹمی ایندھن بنانے کا کارخانہ مکمل اور بڑے پیمانے پہ کام کرنا شروع ہو گیا, اور قطار در قطار, ہزاروِ کی تعداد میں کھڑی "بابے کی مشینیں" افزودہ یورانیم اگلنے لگیں
اس پاکستانی Gas Centrifuge کے ڈیزائن میں بعد کے سالوں میں مزید بہتری لا کہ رفتار اور بڑھائ گئی اور آج کی P-4 Gas Centrifuge دو لاکھ چکر فی منٹ پہ گھومتے ہیں
پاکستان کے تجربہ کار ہنرمندوں کو اہم دفاعی منصوبوں میں شامل کر ان کے جدی پشتی علم سے مستفیض ہونے کی روایت جاری رہی
مائع ایندھن سے چلنے والے غوری میزائل بنانے کے بعد جب ٹھوس ایندھن والے شاھین میزائل بنانے کی ضرورت پڑی تو بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ نئے سرے سے تحقیق کے بجائے, مختلف پرزے بنابے میں عوام میں موجود تجربہ کار مستری, لوہار, ویلڈر اور دیگر کاریگروں سے مدد لی جائے
اس حکمت عملی کی وجہ سے شاھین میزائل انتہائ کم وقت اور کم لاگت میں بنا..


No comments:

Post a Comment